برطانوی سائنس دانوں نے جینیاتی انجینئرنگ سے استفادہ کرتے ہوئے گندم کی ایک ایسی نئی قسم تیار کرلی ہے جو موجودہ اقسام کے مقابلے میں 11 فیصد زیادہ پیداوار دے سکتی ہے۔
زراعت کے میدان میں یہ پیش رفت اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ 1950 اور 1960 میں ”سبز انقلاب“ کے بعد گندم کی پیداوار بڑھانے میں کوئی غیرمعمولی کامیابی سامنے نہیں آسکی ہے جبکہ گندم کی پیداوار میں اضافہ بھی صرف ایک فیصد سالانہ کے حساب سے ہورہا ہے۔
ماضی میں مختلف تدابیر اختیار کرتے ہوئے گندم کی پیداوار بڑھانے کی کوششیں عملاً ناکام رہی ہیں
بعض کوششوں کے نتیجے میں گندم کے دانے کی جسامت زیادہ ہوگئی لیکن گندم کے ہر پودے میں اُگنے والے دانوں کی تعداد کم ہوگئی؛ جبکہ کچھ کوششوں سے گندم کے ہر پودے میں دانوں کی تعداد بڑھائی گئی تو ہر دانہ چھوٹا اور کم وزن ہوگیا۔
یارک یونیورسٹی، برطانیہ کے پروفیسر سائمن مکوین میسن کی قیادت میں تیار کی گئی نئی گندم میں نہ صرف دانوں کی جسامت میں اضافہ کیا گیا ہے، بلکہ ان کی تعداد بھی برقرار رکھی گئی ہے۔
ریسرچ جرنل ”نیو فائٹولوجسٹ“ کے ایک حالیہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ گندم کی یہ نئی قسم نہ صرف تیار کرلی گئی ہے بلکہ اسے کھیتوں میں آزمایا بھی جاچکا ہے۔
کھیتوں میں کی گئی آزمائشوں (فیلڈ ٹرائلز) میں گندم کی نئی قسم کے دانوں کا اوسط وزن، موجودہ گندم کے مقابلے میں 12.3 فیصد زیادہ رہا جبکہ پوری فصل کی مجموعی پیداوار 11 فیصد زیادہ نوٹ کی گئی۔
اگرچہ اسے 1960 کے عشرے میں نارمن بورلاگ کے ”سبز انقلاب“ کی طرح کوئی بڑا انقلاب تو قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن پھر بھی موجودہ حالات میں غذا کی مسلسل بڑھتی ہوئی طلب کے تناظر میں یہ بلاشبہ بہت اہم کامیابی ہے۔