ان دیکھا وائرس

کرسمس کا مہینہ شروع ہوتے ہی مغربی دنیا میں رنگ وبو کا طوفان سا آجاتا ہے دکانیں مارکیٹیں‘ کھانا پینا‘ ہوائی جہازوں کے اڈے‘ ہوٹل ہر جگہ ماحول کچھ اور ہوتاہے،تحفے تحائف غرض کرسمس کے مہینے کے آغاز کی تیاریاں اکتوبر کے مہینے سے شروع ہو چکی ہوتی ہیں2020ءکی کرسمس آچکی ہے لیکن ویران گلیاں اور بند دکانیں کچھ وحشت کا منظر پیش کر رہی ہیں کینیڈا میں روزانہ ڈیڑھ ہزار سے دو ہزار تک کیسز صرف ایک صوبے کے ہیں کورونا یا کووڈ19 ایک عجیب وائرس جس نے زندگی کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے آج کل آدھے سے زیادہ کینیڈا میں مکمل لاک ڈاﺅن ہے صرف سکول کھلے ہوئے ہیں کیونکہ سکولوں میں حفاظتی انتظامات حکومت کے اپنے اختیار میں ہیں اور وہ اس قدر سخت ہیں کہ نہ کوئی بچہ باہر سے بیماری لے کر اندر آسکتا ہے اور نہ ہی کوئی سکول سے باہر اس بیماری کو لے جاسکتا ہے پھر بھی والدین کے خوف اور ڈر کا یہ عالم ہے کہ پچاس فیصد بچے گھروں میں آن لائن تعلیم حاصل کر رہے ہیں بیماری سے متعلق ہرانسان کی رائے اور احتیاطی تدابیر یکسر مختلف ہے اگر ایک بھائی بچوں کو حکومتی حفاظتی اقدامات کے پیش نظر سکول بھجوا رہا ہے تو دوسرا بھائی اسکی رائے سے قطعاً اختلاف کرتے ہوئے آن لائن تعلیم کو ترجیح دے رہا ہے ایسا ہی ایک اتفاق میرا آن لائن تعلیم حاصل کرنیوالے بچوں کے ساتھ مسلسل کئی دن رہا صبح9بجے اس طرح لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھے ہوئے طالب علموں کیلئے ٹیچران ائیر آجاتی ہے جیسے وہ کلاس روم میں آئی ہے سکینڈ کو ضائع کئے بغیر پڑھائی شروع ہو جاتی ہے تمام سٹوڈنٹس اپنے اپنے گھروں میں آن لائن نظرآرہے ہوتے ہیں لیکن ٹیچر صرف اس بچے کی آواز ہی سنواتی ہے جو بول رہا ہوتا ہے اس پڑھائی کے دوران مسلسل تین چار وقفے ہوتے ہیں جن میں بچے نہ صرف ادھر ادھر گھوم لیتے ہیں بلکہ ہلکا پھلکا ہوم ورک بھی کررہے ہوتے ہیں ہوم ورک پڑھنے لکھنے اور تحقیق پر مشتمل ہوتا ہے اور پھ کھانے کاوقفہ ہوتاہے اس کے بعد کلاس2.30 پر ختم ہو جاتی ہے لیکن ایک ایسا پروجیکٹ کرنے تو مل جاتا ہے جو اگلے دو تین دن میں لازما آن لائن ہی جمع کروانا ہوتا ہے مجھے یہ سب دیکھ کر اندازہ ہو کہ کلاس روم سے زیادہ سخت پڑھائی تو کمپیوٹر پر دی جارہی ہے ان سب پابندیوں اورپڑھائیوں کے باوجود اک عجیب قسم کا ڈپریشن اور مایوسی چاروں طرف پھیلے جارہی ہے فروری2020ءکی ہیڈ لائنز شہ سرخیاں اور خبریں پڑھیں تو آج ایک سال گزرنے کے بعد دوبارہ وائرس کی وہی شہ سرخیاں زیادہ زور وشور سے نظر آنے لگی ہیں احتیاط‘ حفاظت‘ فاصلے کے الفاظ ہر سو پھیلے ہوئے نظرآرہے ہیں تعلیم یافتہ لوگ ان باتوں کو سمجھتے ہوئے ان احتیاطی تدابیر کو سنجیدگی سے لیتے ہیں لیکن لاپرواہ اور بیماری کی سخت نوعیت کو نہ سمجھتے ہوئے ہمارے ساتھی ایسے بھی ہیں جو اس جرثومے کو خاطر میں لانے کو تیار نہیںہیں جو بظاہر نظر نہیں آرہا اور یہ ان دیکھا جراثیم ایسا طاقت ور ہے کہ جو جان لیوا بھی ہے اور اس نے دنیا سے زندگی کی چہل پہل اور خوشیاں بھی چھین لی ہیں وہ جن کے پیارے ہسپتالوں میں ہیں اور وہ صرف ہسپتالوں کے دروازوں کو دیکھ رہے ہیں ان کو اندر جاکر ان کے پاس بیٹھنے کی بھی اجازت نہیں اور وہ جن کے عزیز ترین خاندان کے لوگ ہمیشہ کیلئے اس ان دیکھے وائرس کاشکار ہو کر منوں مٹی تلے خاک ہوگئے ان کے جنازوں کو کندھا دینے والے ان کے قریب تک بھی نہ آئے اس بیماری کو بھیج کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں عبرت کا یہ سبق تو سکھا دیا ہے کہ ہم جو اپنے پیاروں کیساتھ ہمیشہ اس امید پر جڑے رہتے ہیں کہ یہ مجھے کندھا دیکر ابدی گھر تک چھوڑے گا اور قبر میں اتارے گا‘ اب وہ امید اور وہ بات ختم ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے اللہ جو چاہتاہے ویسا ہی ہوتا ہے اور وہ جو سخت بیماری کی کیفیات اور حالات سن سن کر دیکھ دیکھ کر خوف زدہ ہیں ان کی مایوسی کی الگ کہانیاں ہیں‘ مغرب کے لوگ تو ذہنی اور دلی طورپر بڑے نازک مزاج ہوتے ہیں ان کی حکومتیں ان کو زندگی کی اتنی سہولتیں دیتی ہیں کہ ان کو مشکلات کا پتہ ہی نہیں ہوتا وہ مشکلات جو ہمارے غریب ملکوں کے بچے بوڑھے نوجوان خواتین پیدا ہوتے ہی برداشت اور صبر کے کھونٹے سے بندھ کر سہتے جاتے ہیں پھر مغربی ممالک میں قوانین آپ کویہاں کا شہری ہونے پر قابل فخر سمجھتے ہیں ایسے میں آپ کی صحت اور آپ کا دماغ صرف خوشیوں کے جھولوں میں ہی جھولتا ہے اب کہ زندگی اسلئے تبدیل ہوگئی ہے کہ حکومت بے بس ہے وہ اس وائرس کے سدباب کیلئے پورا ایک سال گزرنے کے بعد بھی ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکی اللہ کی شان کبریائی نے سائنس اور ٹیکنالوجی کو رد کرکے پرے پھینک دیا ہے وہ ویکسین جسکی افادیت کے دعوے کئے جارہے ہیں وہ ابھی تک باہر نہیں آئی اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا کی تیز ترین رفتار سے تیار ہونے والی ویکسین ہے،پر ہنوز پوشیدہ ہے کیا وہ اتنی ہی مفید ہوگی جتنی بتایا جارہا ہے میری دعا ہے کہ ایسا ہو کہ کوئی معجزہ ہو جائے اور اللہ اس دوائی کے ذریعے دنیا والوں سے چھینی ہوئی خوشیاں ان کو واپس لوٹا دے اور وہ جو ہسپتالوں میں رات دن وائرس زدہ مریضوں کا علاج ایسے کر رہے ہیں کہ یہ ان کا فرض ہے کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ جان سے بڑھ کر کوئی چیز بھی عزیز نہیں ہوتی محکمہ صحت کے یہ قابل فخر لوگ جو اس پورے سال میں اپنی جانیںہتھیلیوں پر رکھے قریب المرگ لوگوں کے علاج معالجے میں مصروف ہیں سینکڑوں ڈاکٹر نرسز اور طبی عملہ باوجود حفاظتی تدابیر کے جان للہ کے سپرد کرگئے ہیں لیکن ان کے حوصلے جوان ہیں ان کے دلوں میں کبھی خیال نہیں آیا کہ نوکری بعد میں کرینگے فی الحال استعفیٰ دیکر گھر بیٹھتے ہیں اور اپنی جان کی حفاظت کرتے ہیں آفرین ہے ان قابل فخر لوگوں پر اور سلیوٹ ہے ان کو‘ میری دعا ہے اللہ سے کہ اے اللہ تو ہم گناہ گاہوں کو معاف کردے تو ہم میں سے کسی اپنے نیک بندے کی آہ و زاری سن لے اس وباءکو ہم دنیا والوں سے دور لے جا اے اللہ میں جانتی ہوں کہ آج بھی ہر وہ برا کام دنیا میں ہورہا ہے جس سے تو ناراض ہوجاتا ہے اور اپنی رحمتوں کو روک لیتا ہے اے رزق دینے والے اللہ تو جس طرح گناہ گار اور نیکوکار سب کیلئے اپنے رزق کے دروازے کھلے رکھتا ہے تو آج بھی ہمارے گناہوں کو نظر انداز کرکے ہمیں اپنی رحمتوں سے نوازدے اور اس ان دیکھے وائرس کو خود بہ خود ختم کردے ہماری گلیاں محلے‘ سڑکیں پھر سے آباد کردے ہماری خوشیاں‘ چہل پہل بحال کر دے ہمارے بچوں کے دوست سہیلیاں ان سے ملا دے وہ سب اُداس ہیں ان رونقوں کیلئے جو2020ءسے پہلے تھیں ہم نے بہت سے سبق حاصل کرلئے ہیں اے اللہ ہم کمزور لوگ ہیں اور اب تم سے معافی کے خواستگار ہیں(آمین)