عمران خان کی یہ بات تو سولہ سو آ نے سچ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں کسی پیسے والے کا نام نہیں ہے بڑے بڑے پیسے والے آئے اور چلے گئے تاریخ صرف ان کو یاد رکھتی ہے جو معاشرے کیلئے کچھ کر جائیں ان کا یہ موقف بھی وزنی ہے کہ کسی سزایافتہ شخص کیلئے آ زادی اظہار کا حق کیسے مانگا جا سکتا ہے اسی بات کوہم آگے بڑھاتے ہوئے درج ذیل معروضات پیش کرنے کی جسارت کریں گے اسلام آباد کی ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج صاحب نے فرمایا ہے کہ تنقید جمہوریت اور آزادی اظہار کا اہم جزو ہے کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں عدالتی فیصلوں پر بھی رائے دی جا سکتی ہے ‘ یہ درست ہے کہ آزادی رائے کا احترام اپنی جگہ مقدم ہے پر یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ آزادءرائے کا اظہار بھی بعض حدود و قیود کا محتاج ہے اگر کسی شریف انسان کی کسی کے اظہار رائے کرنے سے پگڑی اُچھلتی ہے یا وہ کردار کشی کا شکار ہوتا ہے تو اس کا بھی پھر حق بنتا ہے کہ وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا کر اس شخص کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کرے اور اس سے ہرجانے کا مطالبہ کرے کہ جو اس کےخلاف دروغ بیانی کا مرتکب ہوا۔ اس کےلئے قانون میں گنجائش موجود ہے جس کے تحت دروغ بیانی کا شکار فرد ازالہ حیثیت عرفی پر ہر جانے کا مطالبہ کر سکتا ہے ‘ یورپ اور امریکہ میں اس قانون کا کافی استعمال ہو رہا ہے لہٰذا وہاں کسی شخصیت یا ا دارے کے بارے میں اظہار رائے کرنے سے پیشتر کسی رائے کا اظہار کرنے والا شخص دو مرتبہ سوچتا ہے کہ وہ جو بات کرنے جا رہا ہے وہ سو فیصد درست ہے بھی کہ نہیں کیونکہ اسے خدشہ ہوتاہے کہ کہیں اسے لینے کے دینے نہ پڑ جائیں اگر اس کا الزام دروغ بیانی پر مبنی ثابت ہو جائے تو عدالت اس پر اتنا بھاری جرمانہ عائد کرتی ہے کہ اسے چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا ہے اور اسے متاثرہ فرد کو ہرجانہ ادا کرنے کیلئے اپنا سب کچھ بیچنا پڑتا ہے‘ اب ذرا آتے ہیں عمران خان کے اس بیان کی طرف کہ جس میں انہوں نے پیسوں کی ریل پیل میں ہی دلچسپی لینے والے لوگوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے، توسچ یہ ہے کہ جس طرح دولت کے پیچھے دوڑ میں لوگ اپنی زندگی کے مقصد کو بھول بیٹھے ہیں تو ان کی یہ تنقید کچھ غلط نہیں لگتی۔ آج ہماری بہت ساری برائیوں کی جڑ یہی ہے کہ ہم نے دولت کے حصول کیلئے ہر جائز و ناجائز ذریعے کو استعمال کرنا شروع کیا ہے اور اس وقت جو رشوت و کرپشن کا بازار گرم ہے تو اس کی بڑی وجہ یہی دولت کی ہوس ہے جس میں دوسروں کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش میں ہم میں سے اکثر نے دوسروں کی بھلائی اور نیکی کو یکسر نظر انداز کیا ہے۔ ایسی ہی دولت کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اسے ناکارہ شے کی طرح جہنم میں جھونک دیا جائےگا جو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دےگا اور وہ کسی کام کا نہیں رہے گا ، خداوند تعالیٰ کے ارشاد مبارک کامفہوم یہ بھی ہے کہ کیا تم نے اس شخص کی حالت پر بھی غور کیا ہے جوعملًا دین کی تکذیب کرتا ہے دین کا تو مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں جو شخص بے یارومددگار رہ جائے اسے محسوس تک نہ ہونے پائے کہ وہ تنہا اور بے کس ہے اور اگر کسی وجہ سے کسی کی کوئی ضرورت رک جائے تو اسے فورا پورا کر دیا جائے لیکن اس کی حالت یہ ہے کہ جو شخص بے یارو مددگار ہے یہ اسے دھکے دیتا ہے اور محتاجوں کی مدد نہ خود کرتا ہے نہ دوسرے کو ایسا کرنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ مقام افسوس ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ عبادات کے مغز اور مقصد سے آگاہ نہیں ہیں۔ دین میں دوسروں کی بھلائی کے کام اور دوسروں کی مدد کرنا اور مصیبت میں دوسروں کے کام آنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔اس تمام بحث کا مقصد یہ بھی نہیں کہ دولت کوئی بری شے ہے بلکہ دولت تودنیا و آخرت کی فلاح کا باعث بن سکتا ہے اگر اسے محض اپنے نمود و نمائش کی بجائے دین کے احکامات کے مطابق اپنی اور دوسروں کی بھلائی میں صرف کیاجائے۔