سنگاپور سٹی: قدرتی گیس کو ٹھوس اینٹوں میں تبدیل کرنے کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے اس کے بعد یہ مکعب شکل کے ہائیڈریٹس میں تبدیل ہوجاتی ہے جسے بہت آسانی سے ایک سے دوسری جگہ کسی خطرے کے بغیر منتقل کیا جاسکتا ہے۔
عموماً اسے ’جلنے والی برف‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ دیکھنے میں برف کے ٹکڑوں کی صورت اختیار کرتی ہے۔ یہ ٹکڑے آگ دکھانے پر بھڑک اٹھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اب نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور(این یو ایس) کے سائنس دانوں نے ایک طریقہ اختیار کیا ہے جس کے تحت عام درجہ حرارت اور دباؤ پر اسے ٹھوس شکل میں بدلا جاسکتا ہے۔
یہ قدرتی گیس کو ٹھوس بنانے کا ایک بالکل نیا طریقہ ہے اور صرف 15 منٹ میں انجام دیا جاسکتا ہے۔ روایتی طریقوں کے برخلاف اسے بنانے میں بہت کم زہریلے مرکبات استعمال ہوتے ہیں۔
تمام تر جدت کے باوجود بھی قدرتی گیس کی افادیت اب تک موجود ہے، گیس کو ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے اسے مائع بنایا جاتا ہے تاہم اس میں بہت کم درجہ حرارت یعنی منفی 162 درجے سینٹی گریڈ کا نظام درکارہوتا ہے۔
نئے طریقے سے گیس کو ٹھوس بنا کرمحفوظ رکھنا اور ایک سے دوسری جگہ لے جانا بہت آسان ہوتا ہے۔ قدرت کے کارخانے میں یہ مرحلہ بھی دیکھا جاسکتا ہے جس کے تحت پانی کے سالمات (مالیکیول) کے ’پنجروں‘ میں گیس بند ہوجاتی ہے لیکن اس عمل میں لاکھوں کروڑوں سال لگتے ہیں۔ اس عمل کو گیس ہائیڈریشن کہا جاتا ہے۔
اس عمل کو تیز بنانے کے لیے ڈاکٹر پراوین لنگا اور ڈاکٹر گورو بھٹا چاریہ نے ایل ٹرپٹوفین نامی امائنو ایسڈ منتخب کیا ہے جو بہت تیزی سے گیس کو ٹھوس ہائیڈریٹس میں تبدیل کرتا ہے یعنی صرف 15 منٹ میں گیس ٹھوس ٹکڑوں میں بدل جاتی ہے۔ اس عمل میں گیس کو 90 گنا تک بھینچ کر ٹھوس بنایا جاتا ہے اور وہ ٹھوس شکل اختیار کرلیتی ہے۔
صرف اس تجربہ گاہ میں روزانہ 100 کلو ٹھوس گیس تیار کی جاسکتی ہے۔