صرف تانیہ باقی رہ گئی ہے

یہ ایک دکھ بھری کہانی ہے لیکن اس کہانی میں بہادری کی اعلیٰ ترین مثال بھی پوشیدہ ہے۔ سینٹ پیٹرز برگ کے ایک قبرستان میں آج میں کھڑی ہوں۔ اس قبرستان کا نام ”سکاریووسکویو میموریل قبرستان“ ہے۔ یہاں جنگ عظیم دوئم میں مرنے والے ان لوگوں کی قبریں ہیں جو سوویت روس کے عام شہری تھے اولینن گراڈ میں رہتے تھے۔ آج کی تاریخ میں لینن گراڈ کا نام سینٹ پیٹرز برگ ہے۔ میں روس کے ملک میں سیاحت کیلئے آئی ہوں۔ سیاحت کے دوران انسان کو قدم قدم پر تاریخی کہانیوں سے واسطہ رہتا ہے بشرطیکہ آپ کے پاس دیکھنے والی آنکھ اور دھڑکنے والا دل ہو۔ یہاں اس قبرستان میں ایک نوجوان لڑکی کی قبر بھی ہے اور اس کے ہاتھ کے لکھے ہوئے کاغذ کے ٹکڑوں کی تحریروں کو پتھروں پر کندہ کیا ہوا ہے۔ اس لڑکی کی کہانی عجیب ہے۔ اسکا نام تانیہ سیوش تھا اور یہ لینن گراڈ کے گاﺅں میں اپنی ماں اور بہن بھائیوں کےساتھ رہتی تھی۔ اسکا خاندان بیکرز کہلاتا تھا اور اپنے خاندان کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی۔ اس کی تاریخ پیدائش 23 جنوری1930 تھی۔ اس سے بڑی بہن نینا تھی اور اس سے بڑی زینیہ تھی۔ ان کی ماں ماریہ جو اپنے بیٹوں میخائیل اور لیکا سے بھی اتنی ہی محبت کرتی تھی جتنی اپنی بیٹیوں سے۔ ان کے گھر میں بہت پیاری دادی تھی اور دو چچا بھی رہتے تھے۔ ان کا خاندان میوزک کے بھی بڑا قریب تھا اوان میں سے ہر ایک سریلا تھا۔ جنگ عظیم دوئم میں نازی فوجوں یعنی جرمن نے لینن گراڈ پر قبضہ کرلیا۔ وہ روس کا جانی دشمن تھا اگرچہ روس کی بادشاہت اس وقت تک ختم ہوچکی تھی اور کمیونسٹ حکمران سوویت یونین چلا رہے تھے اس کے باوجود ہٹلر سوویت یونین کے اہم شہروں پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ جرمن فوجوں نے 1941 میں لینن گراڈ پر جب قبضہ کیا تو ان کے قبضے کے دوران لینن گراڈ کے چھ لاکھ پچاس ہزار لوگ مر گئے۔ یہ تمام عام شہری تھے اور بھوک سے مر گئے تھے اور لینن گراڈ میں پڑنے والی شدید ترین منجمد سردی کی وجہ سے بھی ان کی اموات واقع ہوئی تھیںکیونکہ جرمن فوجوں نے نہ صرف باہر سے آنے والی ہر قسم کی خوراک کی سپلائی بند کر دی تھی بلکہ گھروں کو گرم کرنے کیلئے فیول کے استعمال پر بھی پابندی لگا دی تھی۔ بھوک ننگ اور افلاس لینن گراڈ کے ہر گھر پر ناچ رہی تھی۔ان ہی گھروں میں سے ایک گھر بیکرز فیملی کا تھا جو متوسط طبقے کے تھے۔ ایک بھائی انجینئر تھا اور میوزیشن بھی۔ زینیہ اور تانیہ ایک کارخانے میں کام کرتی تھیں۔ بعض اوقات کارخانے میں ڈبل شفٹ لگاتی تھی۔ جب لینن گراڈ پر جرمن فوجوں کا قبضہ ہوا تو محب وطن ہونے کے ناطے ان کی ماں روس کی فوجوں کی ہر طرح سے مدد کرتی۔ ان کے کپڑے سی دیتی۔ تانیہ خود مورچے کھودتی تھی۔ اس کا بھائی میخائیل فوج میں شامل ہوکر محاذ پر چلا گیا۔ زینیہ زخمی فوجیوں کو اپنا خون دیکر ان کی زندگی بچانے کی کوشش کرتی۔ ایک دن اس سے بڑی بہن نینا سیوش لاڈوگا جھیل پر گئی اور پھر گھر واپس نہ آئی۔ میخائیل محاذ پر گیا تھا اس کی کوئی خبر نہ تھی۔ اس کے بھائی لیکا نے فوج میں شامل ہونا چاہا لیکن اس کی نظر کمزور تھی۔ وہ گھر میں ہی رہ گیا۔ جب نینا واپس نہ آئی تو اس کے کارخانے میں استعمال ہونے اس کی ایک ڈائری ماں نے تانیہ کو دے دی جس کے چند صفحے خالی رہ گئے تھے۔ تانیہ کی عمر اس وقت 12 سال تھی جب جرمن فوجیں باہر سڑکوں پر تھیں اور لینن گراڈ کے لوگ ہر روزبے تحاشا مر رہے تھے۔ اس کی دادی کو بھوک اور سردی سے ایسا دورہ پڑا کہ وہ ہسپتال جانے سے پہلے مر گئی۔ تانیہ نے پہلی دفعہ ڈائری کے خالی صفحے پر لکھا۔ ”دادی 25جنوری کو 3 بجے مر گئی ہے۔“ دادی کو ایک اکٹھی قبر میں دفنادیاگیا۔ اس کا بھائی بھوک کی وجہ سے سخت بیمار پڑ گیا اور ہسپتال میں داخل ہوگیا جہاں وہ زندہ نہ رہ سکا اور مر گیا۔ تانیہ نے لکھا ” لیکا مر گیا15مارچ 1942 ء5بجے صبح“۔ تانیہ کا اپنے چچا کےساتھ بے انتہا پیار تھا۔ تانیہ نے ڈائری میں لکھا انکل واسیا13 اپریل1942ءدو بجے صبح مر گئے“ اور ابھی ڈائری کے صفحات بھی باقی تھے اور موت بھی رقصاں تھی۔ ایک مہینے کے بعد دوسرا چچا بھوک اور فاقے سے مر گیا۔ وہ 71 سال کا تھا، اس چچا کی وفات پر اس نے موت کا لفظ نہیں لکھا اورلکھا ”انکل واسیا 10 مئی 1942ءدوپہر4 بجے“ چچا کے صرف تین دن بعد تانیہ کی ماں ماریہ فوت ہوگئی۔ کپڑے سی کر اپنے فوجیوں کی مدد کرنے والی عورت بھوک اور پے درپے خاندانی اموات سے ختم ہوگئی ماں کے مرنے کا لفظ ڈائری میں لکھ کر کاٹ دیاگیا ہے۔تاریخ لکھی ہے 13 مئی ماما7:30 بجے صبح۔ پھر بڑی بہن مسلسل خون کے عطیات دینے اور بھوک سے مر گئی۔ ڈائری میں آخری صفحہ بچ گیا تھا اس پر تانیہ نے لکھا ”صرف تانیہ باقی رہ گئی ہے“ اور اگست 1942ءکا مہینہ تھا جب لینن گراڈ کے سب بچوں کو حکومت کی طرف سے ریسکیو کیاگیا۔ ان میں تانیہ سیوش بھی شامل تھی۔ وہ بیمار تھی اس کا سر مسلسل دکھتا تھا اور دو سال مسلسل بیمار رہنے کے بعد جولائی1944ءمیں تانیہ بھی مر گئی۔ اس کو اس بات کا کبھی بھی علم نہ ہوسکا کہ نینا زندہ تھی اور میخائیل اس کا فوجی بھائی بھی زندہ تھا۔ جب نینا گھر آئی اور ڈائری میں ہر فرد کی موت کے بارے میں پڑھا تو غم زدہ ہوگئی۔ تانیہ سیوش کی یہ ڈائری جنگی جرائم کی عدالت میں دستاویز کے طورپر استعمال کی گئی۔ آج کل اس بہادر لڑکی کی ڈائری ہسٹری میوزیم سینٹ پیٹرز برگ میں پڑی ہے۔ تانیہ سیوش سوویت روس کی تاریخ میں ان عظیم لوگوں میں شمار ہوتی ہے جنہوں نے لینن گراڈ کے قبضے کے دوران طویل جدوجہد کی تھی۔ تانیہ نے صرف14 سال عمر پائی لیکن وہ اپنی بہادری اور اپنے خاندان کی محب وطنی کی وجہ سے روس کی تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر ہوگئی۔ آج بھی سینٹ پیٹرز برگ کے قبرستان میں اس کے خاندان کے اور حکومتی سطح پر لاکھوں لوگ جمع ہوکر تانیہ سیوش کی سالگرہ مناتے ہیں۔ 1971ءمیں چاند پر جانے والے روس کے خلاف نوردوں نے ایک سیارہ(Planet) ڈھونڈا تھا اس کا نام تانیہ کے نام پر رکھا گیا ہے اور تانیہ کی ڈائری لاکھوں لوگوں کے مرنے کی نشانی کے طورپر محفوظ کر دی گئی ہے