خیبر پختونخوا حکومت کا یہ فیصلہ بے حد خو ش آئند ہے کہ ہمارے صوبے کا پرا نا ریکارڈ عوام کےلئے کھلے عام دستیاب ہو گا اور مر حلہ وار پر و گرام کے تحت قدیم زما نے کی محفوظ دستا ویزات تک عوام کو رسائی دی جائے گی اعلیٰ تعلیم اور لائبریریوں کے محکمے کے وزیر کا مران بنگش نے آرکائیوز لائبریری کے دورے کے مو قع پر اس بات کا اعلان کر کے تحقیق سے دلچسپی رکھنے والے دانشوروں کےساتھ اخبارات کے قارئین ‘ اساتذہ ‘ وکلا ‘ صحافیوں اور عوامی نما ئندوں کا بڑا مسئلہ حل کر دیا انہوں نے ماتحت آفیسروں پر زور دیا کہ شہر کے مختلف علا قوں میں پبلک لائبریریوں کا جا ل بچھا یا جائے تا کہ نئی نسل کا تعلق کتاب کے ساتھ جوڑنے میں سہو لت اور آسا نی ہو ار کائیوز لائبریری پشاور کے ڈائریکٹر ظاہر اللہ خان نے اپنی بریفنگ میں صو بائی وزیر کو بتا یا کہ محفوظ دستاویزات کا 25فیصد حصہ کمپیو ٹرائز ہو چکا ہے اور ڈیجیٹلائزیشن پر کا م جاری ہے یہ جدید یت کی طرف ایک اہم قدم ہے صو بائی وزیر کے علم میں یہ بات بھی لائی گئی کہ صوبے کے 24 اضلاع میں پبلک لائبریریاں قائم کی گئی ہیں باقی اضلا ع کےلئے منصو بہ زیر غور ہے کتاب اور لائبریری ریکارڈ اور قدیم دستا ویزات میں دلچسپی رکھنے والے قارئین اس بات سے واقف ہیں کہ صو بائی دارلحکو مت پشاور میں کتا بوں اور قدیم دستاویزات کے محا فظ خا نوں کی اپنی تاریخ ہے جن احباب نے 1970کا پشاور دیکھا ہے ان کے علم میں ضرور ہو گا کہ صو بائی دارلحکو مت کی سات اہم لائبریریاں گذشتہ نصف صدی کے دوران بر بادی سے دو چار ہو گئیں ” اب ڈھونڈ انہیں چراغ زیبا لیکر “ ش۔ شوکت مر حوم کے ساتھ اکثر اس مو ضوع پر گفتگو ہو تی تھی ان کو لائبریوں کی تبا ہی کا بیحد افسوس تھا ‘ ش ۔شوکت اپنی بات میو نسپل لائبریری سے شروع کرتے تھے آگے جا کر نیشنل سنٹر کی لائبریری کا ذکر ہو تا تھا اردو سائنس بورڈ کی لائبریری پر مولا نا فضل معبودکا ذکر خیر آتا تھا پھر امریکن سنٹر اور برٹش کونسل کی لائبریریوں کا نا م لیا جاتا تھا پھر کنٹونمنٹ بورڈ کی لائبریریوں پر دو آنسو بہائے جا تے تھے ‘ پھر ڈو ری کا سرا جا کر اُس لائبریری تک پہنچتا جو خود ختم ہو گئی مگر اپنی جگہ بہت بڑی لائبریری کا ورثہ چھوڑ گئی یہ پبلک لائبریری کہلا تی تھی اور کرایے کی عما رتوں میں گردش کر تی تھی طارق منصور جلالی مر حو م اس کے کرتا دھر تا ہو ا کر تے تھے مو جو دہ آر کائیو ز اینڈ پبلک لائبریری کا ما سٹر پلا ن انہوں نے بنا یا طارق منصور جلا لی کے بعد ظاہر اللہ خان اور شاہ مراد خان نے اس پو دے کی آبیاری کی اب یہ تنا ور اور پھلدار درخت بن کر پشاور کی پیشانی کا جھومر بن چکا ہے اب مختلف اضلاع کے محا فظ خا نوں کا ریکارڈ بھی یہاں منتقل ہو چکا ہے ٹرائبل ریسرچ سیل کا ریکارڈ بھی یہاں محفوظ کیا گیا ہے روایتی طریقے سے دستا ویزات کو پا نچ درجو ں میں تلاش کیا جا سکتا ہے محقق اپنے موضوع کے اعتبار سے رجسٹر کے اندراجات کی چھا ن بین کرے گا رجسٹر میں ریک نمبر‘ بستہ نمبر‘بنڈل نمبر اور فائل نمبر مل جائینگے مثال کے طور پر کا لا ڈھا کہ مہم ایک دستا ویز ہے اس کا انگریزی نام بلیک ما ونٹین آپریشن ہے یا چترال کی ریا ست میں جا نشینی کا مو ضوع لے لیں اس کا انگریزی نام چترال سکسیشن ہے آپ کو اپنے موضوع کا مطلو بہ ریکارڈ متعلقہ ریک کے اندر متعلقہ بستے کے متعلقہ بنڈل کی متعلقہ فائل میں مل جائےگا صو بائی حکومت نے اگر دستاویزات کو ”ڈی کلا سیفائی “ کر کے عوام کےلئے کھول دیا تو درخواست اور منظوری کے بغیر مطلو بہ دستا ویز تک آپ کی رسائی ہو گی یہ بہت مثبت اور علم دوست اقدام ہے ۔