ایمسٹریڈیم: ماہرینِ فلکیات کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے کچھ غیرمعمولی ریڈیو سگنل دریافت کیے ہیں جو بظاہر ہمارے نظامِ شمسی سے 51 نوری سال دور ایک سیارے سے آرہے ہیں۔
اگرچہ سائنسدانوں نے ان سگنلوں کے کسی بھی خلائی مخلوق سے ممکنہ تعلق کے بارے میں کوئی دعویٰ نہیں کیا ہے لیکن بعض حلقے انہیں ’خلائی مخلوق کے پیغام‘ قرار دے رہے ہیں جو ایک گمراہ کن بات ہے۔
’’ٹاؤ بوووتیس‘‘ (Tau Boötes) نامی ستارے کے گرد چکر لگانے والے اس سیارے کا موجودہ نام ’’ٹاؤ بوووتیس بی‘‘ (Tau Boötes b) ہے۔
1996 میں دریافت کیا گیا یہ سیارہ ہمارے نظامِ شمسی کے سب سے بڑے سیارے ’’مشتری‘‘ سے بھی تقریباً چھ گنا بڑا ہے جبکہ اس کی سطح کا درجہ حرارت لگ بھگ 1430 ڈگری سینٹی گریڈ معلوم کیا گیا ہے۔
ہالینڈ میں ریڈیو دوربینوں کے وسیع نیٹ ورک ’’لوفار‘‘ (LOFAR) یعنی ’’لو فریکوینسی ایرے‘‘ سے 2016 اور 2017 میں مذکورہ ستارے اور اس کے قریبی علاقے کا ایک ریڈیو سروے کیا گیا تھا۔
گزشتہ برس (2019 میں) ہالینڈ، برطانیہ، فرانس، امریکا اور جنوبی افریقہ کے ماہرین پر مشتمل ایک بین الاقوامی ٹیم نے اس سروے میں ہونے والے مشاہدات کا ایک بار پھر جائزہ لیا تو ان پر ’’ٹاؤ بوووتیس بی‘‘ کی سمت سے آنے والے ریڈیو سگنلوں کا انکشاف ہوا۔
پہلے انہیں غلطی سمجھا گیا لیکن جب مزید احتیاط کے ساتھ یہی تجزیہ ایک بار پھر دہرایا گیا تو یہ سگنل بالکل درست معلوم ہوئے۔
ٹاؤ بوووتیس بی کی جسامت کے پیشِ نظر یہ بات خارج از امکان ہے کہ یہ سگنل کسی خلائی مخلوق نے بھیجے ہوں گے۔ البتہ ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ اگر کوئی سیارہ ہمارے مشتری جتنا یا اس سے بھی بڑا ہو تو اس سے قدرتی طور پر ریڈیو لہریں خارج ہوسکتی ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ٹاؤ بووتیس بی کا معاملہ بھی شاید اسی نوعیت کا ہے، تاہم اتنی زیادہ دوری اور کمزور سگنلوں کی بناء پر فی الحال وہ پورے یقین سے نہیں بتا سکتے کہ یہ سگنل ’’ٹاؤ بووتیس بی‘‘ کی طرف سے آرہے ہیں یا پھر اس کے مرکزی ستارے کی جانب سے۔
یہ جاننے کےلیے مستقبل میں مزید محتاط اور مفصل مشاہدات کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
فی الحال اس بارے میں مفروضہ یہ ہے کہ کیونکہ ’’ٹاؤ بووتیس بی‘‘ اپنے مرکزی ستارے سے بہت قریب ہے اور اس کی کمیت بھی بہت زیادہ ہے، لہٰذا بہت ممکن ہے کہ یہ ریڈیو لہریں اس ستارے سے اٹھنے والی شمسی ہواؤں (سولر وِنڈز) اور سیارے کے طاقتور مقناطیسی میدان میں تصادم کی وجہ سے خارج ہورہی ہوں گی۔
یہ تحقیق آن لائن ریسرچ جرنل ’’ایسٹرونومی اینڈ ایسٹروفزکس‘‘ کے تازہ ترین شمارے میں اشاعت کےلیے منظور کی جاچکی ہے۔