لکڑی کی بنی ہوئی عمارت جس کو سینی ٹوریم کیلئے بنایا گیا تھا لیکن اس کی شہرت کے نصیب جاگ گئے اور قائداعظم محمد علی نے اپنی زندگی کے آخری دن اس مقام پر گزارے جی ہاں یہ زیارت ریڈیڈنسی ہے جس کو قائداعظم ریذیڈنسی بھی کہا جاتا ہے قائداعظم محمد علی جناح نے اس حسین اور خوبصورت مقام پر صرف دو مہینے10دن گزارے اور وہ بھی اپنی خرابی صحت کی وجہ سے قائداعظم فاطمہ جناح کے اور ڈاکٹرز کے پرزور اصرار کے بعد کوئٹہ زیارت میں رہنے کیلئے راضی ہوگئے یہ وہ وقت تھا کہ پاکستان نیا نیاوجود میں آیا تھا قائداعظم محمد علی جناح کی انتھک محنت اور انگریز جیسی شاطر قوم سے نپٹنے کے بعد وہ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بن چکے تھے لیکن آپ اپنی صحت کو زبردستی کھینچ تان کر پاکستان کےلئے اپنی بچی کھچی توانائی سے کام چلا رہے تھے ہوا یوں تھا کہ وہ کراچی سے پشاور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیلئے تشریف لائے فاطمہ جناح بھی انکے ساتھ ہی تھیں آپ ایک ایسی بہن تھیں جنہوں نے اپنے بھائی کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کا سہارا تھے جلسہ عام پشاور میں لوگوں کا جم غفیر امڈ آیا تھا عوام کا محبوب قائد پاکستان بننے کے بعد ان سے ملنے آیا تھا جلسہ شروع ہوتے ہی آسمان پر گہرے بادل چھا گئے اور جس وقت قائداعظم سٹیج پر خطاب کرنے کیلئے ڈائس پر تشریف لائے بونداباندی شروع ہوگئی اور پھردیکھتے ہی دیکھتے بارش برسنے لگی جلسہ کھلے میدان میں تھا قائداعظم اپنے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کو فوراً تقریر ختم کرکے مایوس نہیں کرنا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے تقریر جاری رکھی اور بارش اس نحیف و ناتواں جسم پر برستی رہی جلسے میں بیٹھے ہوئے پشاور کے لوگ کمال کے باوقار تھے کوئی ایک انچ بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا اور خاموشی سے بارش میں عظیم قائد کا عظیم خطاب سنا جاتا رہا فاطمہ جناح کے چہرے پر پریشانی کے آثار واضح دکھائی دے رہے تھے ان کو علم تھا بارش اور یہ سردی آئندہ دنوں میں کیا مصیبت لانے والی ہے اور پھر وہی ہوا جلسے کے اختتام کے بعد قائداعظم کو شدید سردی لگ چکی تھی زکام‘ شدید بخار اور کھانسی نے ان کو بدحال کر دیا فاطمہ جناح کا مشورہ کہ ڈاکٹر کو بلایا جائے فوراً مسترد کر دیا کہ یہ معمولی سردی ہے ٹھیک ہو جاﺅنگا دراصل بظاہر اس کمزورونحیف جسم کے اندر ایک طاقت ور روح بسیرا کرتی تھی اسی طاقت ور روح نے پاکستان کو ہندوﺅں اور انگریزوں دو شاطر اقوام سے نجات دلاکر اسلام کے نام پر ایسی قوت کے طورپر علیحدہ کردیا تھا جس کی آزادی کی قدر ہمیں ہر آنے والے دن میں محسوس ہوتی رہے گی اور انشاءاللہ ہماری نسلوں تک کو یہ آزادی نصیب رہے گی سخت سردی کی حالت میں قائداعظم محمد علی جناح کراچی پہنچے جب ڈاکٹر نے معائنہ کیا تو آپ پر برونکائٹس کا حملہ ہوا تھا یعنی حلق کے اندر سوجن تھی اور پورا گلا سانس کی تکلیف میں مبتلا ہوگیا تھا اس اس حالت میں بھی آپ بستر پر لیٹ کر فائلیں دیکھتے رہے جو ان کو مختلف اداروں کی جانب سے بھیجی جاتی تھیں فاطمہ جناح نے اور ان کے ڈاکٹروں نے ان کی منت سماجت کرکے کچھ عرصہ آرام کیلئے راضی کیا اور کوئٹہ بلوچستان کا مقام زیارت منتخب کیا گیا قائداعظم کی پوری سیاسی زندگی کا پہلا موقع تھا کہ وہ طویل آرام کیلئے کراچی سے دور آگئے فاطمہ جناح اپنی کتاب میرا بھائی میں لکھتی ہیں زیارت کی ریذیڈنسی جہاں ہم ٹھہرے تھے ایک پرانی دو منزلہ عمارت تھی اور ایک بلندو بالا پہاڑی پر کسی مستعد چوکیدار کی طرح کھڑی تھی ریذیڈنسی کے لان اور باغ وسیع تھے جہاں پر پرندے صبح کے نغمے گاتے اور شام کو چہچہاتے تھے پھلدار درختوں کا ایک جھنڈ اور پھولوں کے تختے یہاں کے منظر کی خوبصورتی کو دوبالا کردیتے اور قائداعظم محمد علی جناح زیارت کی خاموشی اور دلکشی پر فریفتہ ہوگئے زیارت کے ان شب و روز میں قائداعظم اکثر مجھ سے نئے آئین‘ کشمیر اور مہاجرین کے بارے میں بات کرتے میں ان کے الفاظ کے پوشیدہ کرب کو محسوس کرتی تھی اپنے بھائی کے زرد ہوتے ہوئے چہرے کے ساتھ جواب بے پناہ تھکن کی غمازی کرتا تھا ان کی دل جوئی کیلئے میں تنہا تھی وہ کہا کرتے فاطی تم درست کہتی تھیں مجھے بہت پہلے سپیشلسٹ سے مشورہ کرنا چاہئے تھا لیکن مجھے افسوس نہیں آدمی صرف جدوجہد کیلئے پید ا ہوا ہے میں اپنے فرائض ادا کرتا رہا تم جانتی ہو میں نے ہمیشہ اپنے بنائے اصولوں پر زندگی گزاری ہے کبھی آنکھیں بند کرکے دوسروں کے مشورے کو نہیں سنا میں نے ہمیشہ سوچ سمجھ کر فیصلے کئے اور زندگی کی شدید مشکلات سے سیکھا ہے قائداعظم زیارت کے اس پرفضا مقام پر کچھ دن کیلئے اچھا محسوس کرتے لیکن ان کی طبیعت اچانک ہی خراب ہو جاتی اس دوران انہوں نے پارسی کمیونٹی سے کوئٹہ میں خطاب کیا سٹاف کالج کوئٹہ کے افسروں سے خطاب کیا یہ نہیںتھا کہ وہ صحت مند ہوگئے تھے بس وہ ظاہر کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ نوآموز مملکت کو پہلے سے زیادہ میری ضرورت ہے 15 جون 1948ءکوئٹہ میں میونسپلٹی کوئٹہ نے قائداعظم کے اعزاز میں استقبالیہ دیا‘یکم جولائی1948ءکو سٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب تھی اور قائداعظم بہت پہلے اسکا دعوت نامہ قبول کرچکے تھے زیارت میں باوجود آرام کے وہ خرابی صحت کا شکار تھے لیکن اصولوں کے ایسے پکے کہ وعدے کے مطابق افتتاحی تقریب میں باوجود فاطمہ جناح اور ڈاکٹروں کے منع کرنے کے پہنچ گئے فاطمہ جناح نے ان کو کہا کہ آپ کوئٹہ اور کراچی کا یہ سفر نہ کریں آپ کی صحت اسکی اجازت نہیں دیتی تو کہنے لگے فاطمہ تو جانتی ہو کانگریس اور ہندو پیش گوئی کرچکے ہیں کہ پاکستان ایک دیوالیہ ملک ہے اور یہ کہ ہمارے لوگ تجارت‘ صنعت ‘بنکنگ‘ جہازرانی اور انشورنس جیسے شعبوں کو نہیں چلا سکیں گے اور ہمیں لازماً یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ان شعبوں میں ہمارے پاس ٹیلنٹ موجود ہے جب آپ کراچی اس تقریب کیلئے تیار ہونے کیلئے اٹھے تو بستر سے اٹھ نہیں سکتے تھے لیکن اپنی پوری توانائی جمع کرکے تقریب میں پہنچے اور خطاب بھی کیا وہاں موجود ہر شخص نے ان کی خرابی صحت کومحسوس کیا وہ کہتے رہے کھانستے رہے اور مسلسل تقریر جاری رکھی ان کی آواز بمشکل نکل رہی تھی واپسی پر گورنر ہاﺅس میں جوتوں سمیت بستر پر لیٹ گئے اسی شام امریکی سفیر کی رہائش گاہ پر بھی ان کے اعزازمیں دعوت تھی باوجود اس حالت کے کپڑے تبدیل کئے اور تھکاوٹ کو چھپاتے ہوئے شریک ہوئے فاطمہ جناح کہتی ہیں اعلیٰ عہدہ اور پوزیشن جس طرح کی قربانی مانگ رہے تھے وہ مسکرا کر ادا کر رہے تھے‘ ہم واپس زیارت آگئے لیکن جب ڈاکٹروں نے بھانپ لیا کہ اب ان کی زندگی کو سخت خطرات درپیش ہیں تو انہوں نے کراچی جانے کا مشورہ دیا13اگست 1948ءکو زیارت کو خیرباد کہا اور کوئٹہ کیلئے روانہ ہوئے فاطمہ جناح لکھتی ہیں سڑک خراب تھی اور گاڑی آہستہ چل رہی تھی یہ سفر جھٹکوں اور ہچکولوںکا سفر تھا جو چار گھنٹوں میں طے ہوا کوئٹہ پہنچ کر ان کا معائنہ ہوا اور کہنے لگے کوئٹہ میں مجھے سانس لینے میں دشواری پیش نہیں آرہی ہے ان کی زندگی کا قوم کے نام آخری پیغام عید کے موقع پر تھا انہوں نے فرمایا برادر مسلم ممالک کیلئے میرا پیغام دوستی خیرسگالی کا ہے ہم سب خطرناک دور سے گزر رہے ہیں طاقت کی سیاست سے جو ڈرامہ فلسطین‘ کشمیر اور انڈونیشیا میں کیا جا رہا ہے اس سے ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئے متحد ہو کر ہی ہم اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں ہر مسلمان کو دیانت داری اور خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنا چاہئے یہ سفر کراچی ان کی زندگی کا آخر ی سفر تھا اللہ پاک ان کی لحد پر رحمتیں نازل کرے ۔۔آمین۔ زیارت جہاں ہمارے محبوب قائد نے زندگی کی آخری گھڑیاں گزاریں وہاں کی ہواﺅں اور دل فریبیوں کو بھی عقیدت کے پھول پیش کرتی ہوں۔