اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان نے صدر مملکت کی طرف سے اوپن سینیٹ الیکشن کرانے بابت دائر کیا جانے والا ریفرنس 4 جنوری کو سماعت کے لئے مقرر کر دیا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ 4 جنوری کو اسلام آباد رجسٹری میں دن ایک بجے معاملے کی سماعت کرے گا۔
جسٹس عمر عطاء بندیال،جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس مشیرعالم بنچ کا حصہ ہوں گے۔
قبل ازیں حکومت کی طرف سے سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ /شو آف ہینڈز کے ذریعے کرانے کے لیے اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان کے ذریعے آرٹیکل186کے تحت ریفرنس دائرکیا گیا تھا۔
ریفرنس کی منظوری صدر مملکت آف پاکستان نے دی تھی۔ ریفرنس میں سپریم کورٹ سے آئین میں ترمیم کیے بغیر سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے معاملے پر رائے مانگی گئی ہے۔
ریفرنس میں آئین کے آرٹیکل 226کی تشریح کرنے اوررائے دینے کی استدعا کی گئی ہے کہ سینیٹ الیکشن اعلانیہ کرانے کے لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت نہیں اور صرف سادہ قانون سازی کے ذریعے الیکشن ایکٹ مجریہ 2017 میں ترمیم کرکے یہ مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ریفرنس میں موقف اپنایا گیا ہے کہ سینیٹ ارکان کے انتخابات آ ئین کے تحت نہیں کرائے جاتے بلکہ الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت کرائے جاتے ہیں اور الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکے سینیٹ کا الیکشن اوپن بیلٹ کے تحت ہو سکتا ہے۔
مزید کہا گیا ہے کہ صدر مملکت،سپیکر وڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی،چیئر مین و ڈپٹی چیئر مین سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر صاحبان کے الیکشن کا معاملہ آئین کے آرٹیکل 226کے تحت آتا ہے جبکہ اراکین سینیٹ کے الیکشن کا معاملہ الیکشن ایکٹ کے تحت آتا ہے اور اراکین سینیٹ کا الیکشن خفیہ ہو یا شو آف ہینڈ کے ذریعے ہو یہ معاملہ الیکشن ایکٹ کے ذریعے طے کیا جاسکتا ہے۔
ریفرنس میں اس سوال پر رائے مانگی گئی ہے کہ الیکشن ایکٹ میں پارلیمنٹ یا صدارتی آرڈننس کے ذریعے ترمیم کرکے سینیٹ الیکشن شو آف ہینڈ کے ذریعے کرائے جاسکتے ہیں۔
ریفرنس میں اوپن بیلٹ کے ذریعے سینیٹ الیکشن کرانے کی افادیت بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ووٹوں کی خرید و فروخت کی گندی روایت کی وجہ سے الیکشن کا تقدس تباہ ہوگیا ہے۔
اوپن بیلٹ سے الیکٹرول پراسس میں شفافیت اور احتساب کو تقویت ملے گی جبکہ سیاسی جماعتیں اور ان کی نظم و ضبط مضبوط ہوگی۔
ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ 1985سے لے کر ہر سینیٹ الیکشن کے بعد ووٹو ں کی خرید وفروخت کی ایک بحث شروع ہوئی اور ہر مرتبہ اصلاحات اور اوپن بیلٹ پر اتفاق رائے پیدا ہوا۔تمام بڑی سیاسی جماعتوں،قانون دانوں،دانشوروں،صحافیوں اور سول سوسائٹی کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انتخابی عمل میں ووٹوں کی خرید وفروخت کی روایت ختم ہونی چاہیے۔
اس ضمن میں میثا ق جمہوریت کا بھی حوالہ دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے ووٹو ں کی خرید و فروخت روکنے کے لیے اوپن بیلٹ سے اتفاق کیا تھا اور اس معاہدے پر دو سابق وزرائے اعظم کے دستخط موجود ہیں۔
مزید کہا گیا ہے کہ سینیٹ ہول کمیٹی نے 2016میں بھی اوپن بیلٹ کی بات کی ہے۔ریفرنس میں پڑوسی ملک بھارت کا بھی حوالہ دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ انڈیا کے عوامی نمائندگی ایکٹ مجریہ 1951کے تحت سینیٹ(راجیہ سبھا)کے الیکشن خفیہ بیلٹ کے ذریعے کرائے جاتے تھے لیکن الیکشن میں ووٹوں کی خرید و فروخت کی گندی روایت کو ختم کرنے اور راجیہ سبھا کے الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے 2003میں عوامی نمائندگی ایکٹ میں ترمیم کی گئی۔
سندھ حکومت بنام متحدہ قومی مومنٹ کیس کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے قرار دیا ہے کہ میئر و ڈپٹی میئر کا الیکشن خفیہ ہو یا اوپن بیلیٹ کے ذریعے اس بابت صوبائی حکومت قانون سازی کی مجاز ہے۔
ریفرنس میں شو آف ہینڈ کے ذریعے سینیٹ الیکشن کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہر سینیٹ الیکشن کے بعد الیکشن کی شفافیت پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور الیکشن میں منی لانڈرنگ کے پیسے استعمال ہوتے ہیں،اوپن بیلٹ سے الیکشن کی شفافیت قائم ہوجائے گی۔
مزید کہا گیا ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین اپنا ووٹ پارٹی خواہشات کے مطابق استعمال کرنے کے پابند ہیں چونکہ سینیٹ ارکین کا انتخاب بلواسطہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے ارکین کے ذریعے ہوتا ہے اس لیے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی پابند ہیں کہ وہ اپنی اپنی پارٹی کے امیدواروں کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرے۔
اگر وہ پارٹی خواہش کے برعکس اپنا ووٹ استعمال کرتے ہیں تو ان پر آئین کے آرٹیکل 63اے کا اطلاق ہوتا ہے اور وہ قومی یا صوبائی اسمبلی کی رکنیت کے لیے نااہل ہوجاتے ہیں۔
سینیٹ الیکشن شو آف ہینڈ کرانے سے عوام کی خواہشات کے مطابق ان کے ووٹ کے صحیح استعمال کا حق تسلیم ہوجائے گا،پالیمانی جمہوریت کی مضبوطی کے لیے سیاسی جماعتوں کا مضبوط ہونا لازم ہے اورشو آف ہینڈ کے ذریعے سینیٹ الیکشن سے سیاسی جماعتیں مضبوط ہوں گی۔اس سے فلور کراسنگ اور منی لانڈرنگ کے پیسوں سے ووٹوں کی خرید و فروخت کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ فلور کراسنگ اور منی لانڈرنگ کی دولت کا الیکشن میں استعمال عوام کے مینڈیٹ کی توہین ہے۔
ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ آزاد،شفاف اور منصفانہ سینیٹ الیکشن یقینی بنانے کے لیے مقننہ کو قانون سازی کا اختیار مل جائے گا اور یہ ثابت ہوجائے گا کہ آئین ایک زندہ دستاویز ہے اور اس دستاویز میں ترمیم کے بغیر الیکشن پراسس کی خرابیوں کو دور کیا جاسکتا ہے۔ہمیشہ کے لیے ووٹوں کی خرید وفروخت اور پارلیمنٹ میں ناپسندیدہ افراد کے داخلے کے دروازے بند ہوجائیں گے۔
عدالت عظمیٰ نے اب مجوزہ ریفرنس 4 جنوری کو سماعت کے لئے مقرر کر لیا ہے۔