بیجنگ: دورانِ پرواز ڈرون میں کوانٹم کیفیت میں موجود (اینٹینگلڈ) فوٹون کے تبادلے کا کامیاب مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی سے کوانٹم انٹرنیٹ کی منزل قریب لانےکی راہ ہموار ہوئی ہے۔
کوانٹم اینٹینگلڈ عمل میں جب ہم ایک فوٹون کو پڑھتے ہیں تو ازخود دوسرے کی کیفیت (اسٹیٹ) کا تعین ہوجاتا ہے، خواہ وہ ایک دوسرے سے کتنے ہی فاصلے پر موجود کیوں نہ ہوں۔ البرٹ آئن اسٹائن نے بھی اس پر خاصی تحقیق کی تھی اور ’فاصلے پر موجود پراسرار عمل‘ کا نام دیا تھا۔ یہ کوانٹم انکرپشن کا حصہ ہے جو مواصلات کو انتہائی خفیہ بناسکتا ہے۔
انٹرنیٹ پر ہیکنگ، نقب زنی اور چوری عام ہے جب کہ ہیکرز اب تک کوانٹم انٹرنیٹ پر معلومات کی گرد بھی نہیں پاسکتے۔ کیونکہ سن گن لینے کی کوشش سے فوراً ہی فوٹون اپنی کیفیت بدل لیں گے اور اصل مالک کو اس کا فوری احساس ہوجائے گا۔ اس سے قبل زمینی اسٹیشن اور 1000 کلومیٹر بلند سیٹلائٹ کے درمیان کوانٹم فوٹون کا تبادلہ ہوچکا ہے۔
لیکن اب چین میں ننجنگ یونیورسٹی کے پروفیسر زیندے ژائی اور ان کے ساتھیوں نے کم خرچ آلات سے کوانٹم اینٹنگلمنٹ کو بہت تھوڑے فاصلے پر آزماتے ہوئے اس کے عملی پہلوؤں کو واضح کیا ہے۔ یعنی پہلی مرتبہ حرکت کرتی کوئی شے سے دوسری متحرک شے کو فوٹون سگنل بھیجا گیا ہے۔
ڈرون پر لگی لیزر سے کرسٹل کو ایک فوٹون کو توڑ کر دو میں تقسیم کیا گیا۔ ان میں سے ایک خاموشی سے زمین اسٹیشن پر گیا اور دوسرا ایک کلومیٹر دور دوسرے اڑتے ہوئے ڈرون تک بھاگا۔ اس دوران حساس موٹروں کے ذریعے ٹرانسمیٹر اور ریسیور کو ایک لائن میں رکھا گیا۔ فوٹون کا اسٹیٹ زمینی اسٹیشن پر نوٹ کیا گیا اور نتائج سے بھی عین یہی بات ظاہر ہوئی۔
اب اس ایجاد کا فائدہ سن لیجئے کہ اس سے ڈرون کے ذریعے انتہائی محفوظ کوانٹم انٹرنیٹ کی راہ ہموار ہوسکتی ہے لیکن فی الحال یہ ایک تجربہ اور اس کے ٹھوس عملی نتائج میں کچھ برس لگ سکتے ہیں۔