پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ۔۔۔۔۔۔

گزشتہ دنوںحالیہ پندھڑوارے کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ کر دیا گیاتھا، یہ فیصلہ مکمل اتفاق سے نہیں ہواتھا، جبکہ عالمی مارکیٹ میں تو پٹرولیم مصنوعات کے نرخ کم ہوئے اور توقع کی جا رہی تھی کہ کچھ ریلیف ملے گی،لیکن ایسا نہیں ہوا، اور نرخ بڑھا دیئے گئے، پٹرول 3.20روپے اور ہائی سپیڈ ڈیزل 2.95 روپے، جبکہ لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 4.42 روپے فی لیٹر اضافہ ہوا ہے۔ یوں صارفین پر مزید بوجھ بڑھ گیا۔حکومت کی جانب سے ایک ماہ میں مسلسل دوسری بارپٹرول کی قیمتوں میں اضافہ تشویش ناک امر ہے، جس سے عوام کو سخت صورتحال کا سامنا ہے جس سے حکومت کی مقبولیت پر بھی منفی اثرات مرتب ہونے کا خطرہ پایا جاتا ہے،راقم پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہے کہ اگر مہنگائی کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو خطرہ ہے اپوزیشن کی تحریک پر حکومت کے خلاف نہ نکلنے والے عوام مہنگائی کے خلاف ازخود ہی نہ نکل آئیں، اگر ایسا ہو گیا تو یہ بہت خوفناک صورتحال ہو گی،جسے کنٹرول کرنا حکومت کے لئے مشکل ہو جائے گا۔حکومت اس وقت فی لیٹر پٹرول پر لیوی اور دیگر ٹیکسز کی مد میں 57روپے حاصل کر رہی ہے، جبکہ 2015میں جب پٹرول کی عالمی قیمت اتنی ہی تھی جتنی اب ہے حکومت صرف 37روپے لے رہی تھی۔حکومت کو چاہیے کہ وہ بیورو کریسی کی جانب سے آسان کمائی کی راہ اختیار کرنے کے بجائے لیوی میں کمی کرکے عوام کو ریلیف دے، کیونکہ المیہ یہ ہے کہ پٹرول سستا ہونے پر اتنا ہی لیوی میں اضافہ کرکے قیمت برقرار رکھی جاتی ہے لیکن عالمی منڈی میں ریٹ بڑھنے پر اس اضافے کو ختم کرنے کے بجائے قیمت میں اضافہ کرکے عوام پر بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔وزیر اعظم پاکستان کو اس معاملہ میں ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے، بڑا فیصلہ کرنا چاہیے، عوام میں اب مزید مہنگائی برداشت کرنے کی ہمت باقی نہیں بچی۔جبکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا حکومتی اقدام لاہور ہائیکورٹ میںبھی چیلنج کر دیا گیا ہے۔جوڈیشنل ایکٹوزم پینل کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ میں متفرق درخواست دائر کی گئی ہے۔درخواست میں مﺅقف اختیار کیا گیا ہے کہ عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات باقی کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں،جبکہ اس کے برعکس پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔قیمتوں میں اضافہ آئین کے آرٹیکل9اور14سے متصادم ہے۔عدالت عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی مناسبت سے قیمتوں کا تعین کرنے کا حکم دے۔ایک وقت تھا جب پٹرول کی قیمتوں میں پیسوں کی صورت میں اضافہ کیا جاتا تھا لیکن آج ایک روپیہ نہیں بلکہ3سے 5روپے پٹرول کی قیمت میں یکدم اضافہ کر کے عوام کو مہنگائی کی بے رحم موجوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ جس تیزی سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تواتر کے ساتھ اضافہ کیا جارہا ہے اس سے عوام کی قوت خرید بڑھنے کے بجائے کم ہوتی جا رہی ہے۔حکومت کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کیلئے یہ جواز پیش کیا جا تا ہے کہ عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافے کی بناءپر ایسا کرنا پڑا،یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ٹیکسوں کے نفاذ کا معاملہ پیچیدہ ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ پٹرولیم مصنوعات کی فی لیٹر قیمت پر لگائے گئے انواع وقسام کے غیر منصفانہ ٹیکس اور ڈیوٹیاں ختم کرے۔ دوسری جانب کاروباری سرگرمیاں بھی سرد مہری کی نذر ہو چکی ہیں۔یہ صورت حال صحت مند معاشرے اورملکی معاشی ترقی کے لئے کسی طور بھی سود مند نہیں۔جبکہ موجودہ حکومت نے الیکشن مہم کے دوران یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ یوٹیلیٹی بلوں میں اضافہ نہیں کرے گی اور عوام کو مہنگائی کے عذاب سے نجات دلائے گی۔بلاشبہ موجود ہ حکومت کو انتہائی مشکل مالی حالات کا سامنا ہے،ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا بوجھ ، حد سے بڑھی ہوئی بے روزگاری اور پیداواری صلاحیت میں کمی کے باعث ملکی معیشت انتہائی دگرگوں حالات سے دوچار ہے۔بہتر یہی ہے کہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو سالانہ بجٹ میں ایک ہی بار طے کر دے۔اس طریقے سے کم از کم پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک برس تک استحکام رہے گا،اس استحکام کا ملکی معیشت کے دیگر شعبوں پر مثبت اثر پڑے گا۔