برطانیہ میں ایک چارسالہ بچی نے ساحل کنارے گوشت خور ڈائنوسار کے قدموں کے نشانات ڈھونڈ نکالے ہیں جن کی تصدیق خود قومی میوزیم نے بھی کی ہے۔
جنوری 2021 میں چارسالہ لِلی ولڈر اپنے والدین کے ساتھ بینڈرکس بے نامی ساحلی علاقے میں چہل قدمی کررہی تھی کہ یہاں واقع بیری کے علاقے میں ایک عجیب وغریب مقام پر ان کی نظرپڑی اور وہ گوشت خور یا تھیروپوڈ نسل کے ڈائنوسار کے نقشِ پا برآمد ہوئے۔
اس کے بعد ماہرین نے انہیں دیکھا اور کہا ہے کہ یہ 22 کروڑ سال پہلے کے نشانات ہیں جو ریگستانی مٹی میں محفوظ ہوگئے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ علاقہ قدیم جانوروں کے آثار کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہاں لِلی اپنے والد رچرڈ کے ساتھ گزررہی تھی کہ اس کی نظر پتھر پر ایک نشان پر گئی اور اس نے اپنے والد سے کہا کہ ’ابو وہ دیکھیں‘ اور اس کے بعد مقام کی کئی تصاویر اتاری گئیں۔
بعد ازاں یہ تصاویر نیشنل میوزیم کو بھیجی گئیں جہاں رکازیات کی ماہر سِنڈی ہوویلز نے کہا کہ علاقے سے ملنے والے قدموں کے بہترین نشانات ہیں ۔ نقشِ قدم کی لمبائی 10 سینٹی میٹر ہے۔ خیال ہے کہ ڈائنوسار 75 سینٹی میٹر بلند اور ڈھائی میٹر لمبا تھا ، تاہم ڈائنوسار کی حتمی نسل کا سراغ لگانا آسان اب تک ممکن نہیں ہوسکا ہے۔
بینڈرکس بے کا علاقہ قدیم جانداروں کی ہڈیوں اور آثار کی وجہ سے غیرمعمولی شہرت رکھتا ہے۔ یہاں بہت سارے جانوروں کے قدموں کے نشانات مل چکے ہیں لیکن وہ مگرمچھ اور دیگر جانداروں کے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈائنوسار کے اس نشان کو بہت اہمیت دی جارہی ہے۔ ماہرین نے ڈائنوسار کے قدم کے نشانات وہاں سے الگ کرلیے ہیں اور انہیں میوزیم منتقل کردیا ہے۔