70رنز کی پارنٹر شپ قائم کرنیوالا اوپنر صفر پر آؤٹ

پشاور : موجودہ دور میں کرکٹ انتہائی تیز ہو گئی ہے۔ 2003میں ٹی 20کرکٹ متعارف کرائے جانے کے بعد2004میں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کی ویمنز ٹیم کے درمیان پہلا ٹی 20انٹرنیشنل میچ کھیلا گیا جبکہ 17فروری 2005میں نیوزی لینڈ اور انگلینڈ  کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان پہلا مینز انٹرنیشنل ٹی 20میچ کھیلا گیا جس کے بعد اس فارمیٹ نے انتہائی شہرت حاصل کی۔ 

اس فارمیٹ کے مقبولیت حاصل کرنے کے بعد ہر ٹیم کو ہارڈ ہٹرز کا ساتھ میسر ہونے لگا۔ اور تیز رفتاری سے رنز بٹورنے والے بلے باز ہر ٹیم میں آگئے۔جن میں کئی بلے بازوں نے کافی شہریت حاصل کی 

اگر 90ء میں چلے جائیں تو اس دور میں تیز رفتاری سے رنز بنانا بہت ہی کم میچز میں دیکھنے کو ملتا تھا۔ 1992کے ورلڈکپ کے سیمی فائنل اور فائنل میچز میں انضمام الحق نے تیز رفتاری سے رنز کرکے شہرت حاصل کی اور پاکستان کو پہلی مرتبہ ورلڈکپ جیتنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اس کے بعد تیز رفتاری اور ہر میچ میں تسلسل کیساتھ چھکے اور چوکے مارنے  والے سنتھ جے سوریا نے اپنے دلکش سٹروک سے دنیا کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔جس کا سحر توڑنے میں اس وقت  شاہد آفریدی کامیاب ہوئے۔تاہم عالمی کرکٹ میں ان دونوں بلے بازوں کا ایک دوسرے سے موازنہ کرنا مشکل ہے، دونوں ہی اپنے وقت کے لیجنڈ بلے باز تھے اور تیز رفتاری سے رنز بٹورنے میں ان کاکوئی ثانی نہیں تھا۔

سنتھ جے سوریا کو اوپننگ کرتے ہوئے کالو وتھرانے کا ساتھ میسر ہوتا تھا جو خود بھی تیز رنز کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔7اپریل  1996میں  سنگا پور میں کھیلے جانے والے سنگر کپ کے فائنل میچ میں سنتھ جے سوریا نے ایک ایسی ہی تیز رفتار اوپننگ شراکت قائم کی جس میں انہوں نے اپنے پارٹنرکالو وتھرنے کیساتھ صرف 5.2اوورز میں 70رنز سکور کئے۔

 یہ فائنل میچ کئی حوالوں سے انتہائی دلچسپ اور سنسنسی سے بھر پور تھا جس میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ 50اوورز میں 215رنز کا ہدف دیا تھا۔ ہدف کے تعاقب میں جے سوریا نے انتہائی تیز رفتاری سے رنز سکور کرنا شروع کردیئے۔

جے سوریا نے  پاکستان کے سابق لیجنڈ بالرز وقار یونس، عاقب جاوید، عطاء الرحمن اور آف سپنر ثقلین مشتاق کا سامنا کرتے ہوئے ان پر چھکوں اور چوکوں کی بارش کردی اور صرف5.3اوورز میں سکور 70رنز تک پہنچا دیا لیکن حیران کن طور پر ا ن کے اوپننگ پارٹنر کالووتھرانے 70رنز کی پہلی وکٹ کی شراکت قائم کرتے ہوئے”صفر“ پر آؤٹ ہوئے ان کو عاقب جاوید نے بولڈ کیا تھا۔اس میچ کا یہ دلچسپ ریکارڈ آج تک قائم ہے۔

یہ میچ سنتھ جے سوریا کی برق رفتار اننگز کے باعث شروع کے چند اوورز میں ہی پاکستان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا لیکن جے سوریا کے27بالز میں 76رنز  پر آؤٹ ہونے  کے بعد دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی اور پاکستان کے مایہ ناز بالرز نے اپنا وہ کام دکھانا شروع کیا جس کے لئے وہ اس دور میں مشہور تھے۔ جے سوریا جب آؤٹ ہوئے تو ٹیم کا 8.3اوورز میں مجموعی سکور دو وکٹ کے نقصان پر 96رنزتھا۔

میچ جیتنے کیلئے سری لنکا کو 113رنز کی ضرورت تھی جبکہ اس کے پاس 8وکٹس باقی تھیں تاہم عاقب جاوید، وقار یونس، ثقلین مشتاق، عطاء الرحمن نے اپنی بہترین بالنگ سے دیگر آنے والے بلے بازوں کو تگنی کا ناچ نچا دیا اور ارویندا ڈی سلوا، ارجنا رانا ٹنگے، روشن ماہنامہ اور دیگر معروف اور مایہ ناز سری لنکن بلے بازوں کی وکٹیں تنکوں کی طرح بکھیر دیں اور پوری ٹیم کو 174رنز کے مجموعی سکور پر ڈھیر کردیایوں 43رنز سے فتح اپنے نام کی اور ٹرافی بھی اٹھانے کا موقع حاصل کیا۔


یہ میچ کئی حوالوں سے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس میچ کی سب سے حیران کن بات سری لنکن اوپنر زکا  70رنز کی پارٹنرشپ قائم کرنا تھا جبکہ 70رنز کی پارٹنر شپ میں دوسرا اوپنر صفر پر آؤٹ ہوجاتا ہے۔ 

اس میچ میں سنتھ جے سوریا نے صرف 17بالز میں تیز رفتار ففٹی کا ریکارڈ قائم کیا جوتقریباً 19سال بعد جنوبی افریقہ کے سابق مایہ ناز بلے باز اے بی ڈی ویلیئرز نے  16بالز میں یہ کارنامہ سر انجام دیکر توڑا۔


سنتھ جے سوریا کی جارحانہ اننگ دیکھ کر لگ رہا تھا کہ میچ 15سے 20اوورز میں ہی ختم ہوجائے گا جس رفتار سے سنتھ جے سوریا رنز سکورکررہے تھے اس صورتحال میں میچ جیتنا تقریباً ناممکن ہوچکا تھا لیکن پھر جو پاکستان کے سابق لیجنڈ بالرز نے دنیا کو آن دی گراؤنڈ دکھایا وہ آج تک نہیں بھلایا جاسکتا۔
 

 افسوس کہ اس طرح کے سنسنی خیز میچز اب بہت ہی کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پاکستان کی ٹیم میں عاقب جاوید، وسیم اکرم، وقار یونس، عطاء الرحمن اور ثقلین مشتاق جیسے بالرز کی شدید کمی محسوس کی جارہی ہے جو کسی وقت بھی یقینی فتح مخالف ٹیم سے چھین لیتے تھے۔