دبئی سٹی: عرب دنیا کی جانب سے مریخ کے لیے بھیجا جانے والا پہلا خلائی جہاز’امید‘(ہوپ) صرف چند روز بعد 9 فروری کو مریخ کی فضا میں داخل ہوجائے گا۔ مدار میں گردش کرتے ہوئے یہ مریخی موسم کا تفصیلی مطالعہ کرے گا۔
متحدہ عرب امارات کی جانب سے سرخ سیارے پر بھیجا گیا یہ پہلا مشن ہے جو مریخ کی سطح پر تو نہیں اترے گا لیکن اس کے مدار میں زیرِ گردش رہے گا۔
تاہم 18 فروری کو امریکا کی مریخی خلائی گاڑی (روور) پرویزروینس مریخی سطح کو چھوئے گی اور اس کے بعد چینی روور اسی سال اپریل میں مریخ پرچلنے پھرنے لگے گا۔ اس طرح تین مختلف ممالک کی جانب سے مریخی جہاز اسی سال اپنی منزل تک پہنچیں گے۔
اماراتی خلائی ایجنسی میں مریخی مشن کی سربراہ سارہ الامیری نے بتایا کہ ان کی ٹیم مریخی مشن کے اہم مرحلے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مریخی مشن سے رابطہ کرنے میں کسی قسم کی تاخیر مشن کو تباہ کرسکتی ہے۔
امید مشن اب جس مقام پر موجود ہے وہاں سے ریڈیو سگنل زمین تک پہنچنے میں گیارہ منٹ لگتے ہیں۔ اسی وجہ سے مدار میں داخل کرنے کا سارا مشن خود کار انداز میں آٹو پائلٹ پر رکھا گیا ہے۔
اگر اس دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوتا ہے تو اس کے کمپیوٹروں میں کئی اہم متبادل طریقے بھی رکھے گئے ہیں ۔
27 منٹ کا مرحلہ اعصاب شکن ہوگا اور اس کے خود کار تھرسٹر(دھکیلنے والے چھوٹے راکٹ) اسے محفوظ اور مستحکم مدار پر ڈال دیں گے۔
یونیورسٹی آف کولاراڈو کے پیٹ ودنیل مشن کے پروگرام مینیجرہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ہمیں خلائی سواری کے تھرسٹر جلنے کا پتا چلے گا اس وقت تک یہ نصف سفر طے کرچکا ہوگا۔ اس مشن میں ہم صرف اس کا مشاہدہ کریں گے اور ہم اس مشن میں کوئی مداخلت نہیں کرسکیں گے۔
دبئی میں واقع محمد بن راشد خلائی مرکز کے سائنسداں ڈاکٹراومران شرف کہتے ہیں کہ خلائی جہاز سے تاخیری سگنل ہی ہمارے اعصاب کا امتحان ہیں۔
اس سے قبل ہم نے اسے زمین پر ٹیسٹ نہیں کیا اور اس عمل میں 27 منٹ تک بغیر رکے تھرسٹر جلتے رہیں گے۔ لیکن اگر خلائی جہاز اپنی درست راہ کا انتخاب کرلیتا ہے تو صرف چند سیکنڈ سے ایک منٹ کے لیے تھرسٹر جلانے ہوں گے۔
ہوپ نامی مشن مریخی خط استوا کے قریب کا راستہ لیتے ہوئے مریخی حرکت سے ہم آہنگ ہوجائے گا۔ اس کے بعد وہ اپنے آلات کی بدولت ہر نو دن بعد مریخ کی مکمل موسم کی خبر دے سکے گا۔
امید مشن کے ذمے تین اہم کام ہیں جن میں زیریں سرخ (انفراریڈ) طیف سے فضا کا جائزہ لیا جائے گا جو اس سے قبل ممکن نہ تھا۔ دوم یہ موسم کی ہر پرت کو دیکھتے ہوئے بتائے گا کہ آخر ہائیڈروجن اور آکسیجن کا فرار کیسے ممکن ہوا۔ سوم یہ ان تمام پہلوؤں کا جائزہ بھی لے گا جس سے ہائیڈروجن اور آکسیجن اس نظام سے باہر نکل گئے تھے۔
متحدہ عرب امارات کا یہ پہلا مشن اس وقت 80 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے مریخ کی جانب رواں دواں ہے۔