فروری میں کشمیر کادن منانے کا فیصلہ تو حکومتوں نے بہت بعد میں کیا لیکن ایک محاذ پاکستان بننے کے بعد اول دن سے موجود تھا جہاں رات دن کے چوبیس گھنٹے کشمیر کا مقدمہ لڑا جاتا تھا اور کسی حد تک آج بھی یہ محاذ جاری ہے اور اس محاذ کے فوجی صف اول میں گزشتہ چھ سال دہائیوں سے مسلسل یہ جنگ لڑ رہے ہیں کسی نمودونمائش کے بغیر کسی صلے کی پرواہ کئے بغیر اور پاکستان کے سب سے بڑے مقصد کیلئے لڑتے رہنے کے باوجود ان کی جھولی میں کبھی ستائش کے دو لفظ نہیں ڈالے گئے ‘ جی یہ محاذ آزاد کشمیر ریڈیو تڑا کھل کا ہے جہاں مائیکرو فون کے ذریعے پاکستان کے اٹوٹ انگ اور شہ رگ مقبوضہ کشمیر کی لڑائی براہ راست ہندوستان کے ساتھ دن رات لڑی جاتی ہے یہاں تک کہ اپنے پروپیگنڈا پروگراموں کے ذریعے ہندوستان کے ہر بڑے چھوٹے لیڈر کے دماغ پرہتھوڑے برسائے جاتے ہیں مجھے بھی یہ اعزاز حاصل رہا کہ میں نے اپنے ریڈیو پاکستان میں نوکری کا آغاز آزاد کشمیر ریڈیو تڑا کھل کے ریڈیو سٹیشن سے کیا جو پاکستان بننے کے بعد کوہ مری کی پہاڑیوں پر اوائل میں اپنی نشریات ہندوستان کو ٹارگٹ کرکے نشر کرنا تھا اور بعد میں راولپنڈی کی ایک عمارت میں یہ مشن سالوں سے جاری اور ساری ہے اس وقت اس عمارت پر کوئی نام نہیں تھا اور اس کا کوڈورڈ ہوتا تھا اور آج بھی اس ریڈیو سٹیشن کو اسی کوڈورڈ سے یاد کیا جاتا ہے میں نے اپنی آغاز سروس کے پانچ چھ سال یہاں گزارے اور بہت قریب سے پروپیگنڈا نشریات کا جائزہ لیا اور خود ان نشریات کو پھیلانے کا ذریعہ بھی بنی یہ ایسی نشریات تھیں جس میں ہندوستان کی حکومت کو براہ راست ملامت کیا جاتا تھا اسکو قابض اور غاصب کہہ کر پکارا جاتا تھا ایسے کردار متعارف کروائے جاتے ہیں جو اپنے منہ سے مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کے اسباب بیان کرتے تھے اور وادی کشمیر کے اس پار رہنے والوں کے نہ صرف حوصلے بڑھاتے تھے ان کو آزادی کے دن کی نوید سناتے تھے نشریات کشمیر کے ترانے سے شروع ہوتی تھیں اور کشمیر جنت نظیر کے ترانے پر ختم ہوتی تھیں میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن‘ ستم شعاروں سے تم کو چھڑائیں گے اک دن‘ کشمیر اور اردو کے الفاظ پر مبنی یہ ترانہ جسم کے رونگٹے کھڑے کرنے کیلئے کافی ہوتا تھا ترانے کے خالق اور میوزیشن بھی ہماری ہی ٹیم کا حصہ تھے جو ماسٹر عنایت حسین اور انیتا بانو تھے سلیم رفیقی تھے ‘جب شاہین اشتیاق‘ یاسمین اشتیاق‘ اور صدیق دوسہ‘ رقیہ اصفہانی لائیو بیٹھ کر ڈرمہ کرتے تھے تو ہندوستان کے چھکے چھڑا دیتے تھے بے شمار صدا کار تھے جو اپنی اپنی باری باری پر بولتے تھے اور ایسا بولتے تھے کہ فخر محسوس ہوتا تھا حمید مفتی اپنی تقاریر کرنے سرینگر کی وادیوں سے کہیں چھپ چھپا کر ریڈیو اسٹیشن آئے تھے بہت سے مقبوضہ کشمیر کے دانشور جو پنڈی میں رہائش پذیر تھے وہ ہر وقت آزاد کشمیر ریڈیو تڑا کھل میں جمع رہتے ہیں ان میں عالم سرتاج نذیر بیگم‘ بشیر صوفی‘ یعقوب لالی اور بے شمار نام نمایاں تھے زندگی کے کئی مہ و سال گزرنے کے بعد حافظے پر ایسا اثر پڑا ہے کہ کئی نامور ہستیوں کے نام بھول گئی ہوں میرے کمرے میں چار نامور براڈکاسٹرز بھی بیٹھتے تھے جن میں بشرفی صوفی‘ یعقوب لالی کے علاوہ انعام اللہ شاہ اور شاہد چک اور آسیہ بخاری بھی تھے تمام ہی مجھ سے بہت سینئر اور اپنے اپنے براڈ کاسٹنگ کے فن کے ماہر تھے سوائے آسیہ بخاری کے کہ وہ بھی میری طرح اس میدان میں نووارد تھی اب آسیہ بخاری بھی اس دنیا میں نہیں یعقوب لالی‘ انعام اللہ شاہ‘ بشر صوفی‘ رفیق قریشی‘ شکور صدیقی‘ صدیق دوسہ ناہید کاظمی‘ صوفیہ‘ منصور تابش حسن ذکی کاظمی‘ ایس ایم رفیق‘ محمد ظفر‘ ظفر محمد‘ تمام ہی اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو چکے ہیں لیکن ان کا کام ان کا مقصد ان کا جذبہ اور کشمیر کی آزادی کی شمع کو ہمیشہ زندہ رکھنے کا عزم ان کے چہروں سے نظر آتاتھا اللہ پاک ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے جب مجھے ادبی پروگرام نشر کرنے کاموقع ملا تو مجھے شمیم اکرام الحق‘ شمشاد صدیقی‘ پروین فنا سید‘ مسعودہ نقشبندی‘ بشری جاوید اور بے شمار خوبصورت لکھاریوں کے ساتھ کام کرنے کا اتفاق ہوا ان میں سیٹلائٹ کالج راولپنڈی کی سینئر پروفیسرز بھی تھیں اور راولپنڈی اور گردونواح کی تحصیلوں کے بڑے ادیب اور شعراءکرام بھی تھے قاری عبید اللہ ہمارے ہی ریڈیو سٹیشن پر تعینات تھے جو صبح شام ہر نشریات سے پہلے لائیو تلاوت کلام پاک اور ترجمہ نشر کرتے تھے ان کی آواز میں کتنا سوز اور ملال تھا کہ ان کے منہ سے تلاوت سن کر لطف آجاتا تھا اللہ پاک ان کو غریق رحمت کرے(امین) میں آج بھی صرف ان ہی کی ریکارڈنگ میں تلاوٹ کام پاک سنتی ہوں اگرچہ اس ریڈیو سٹیشن میں جونیئر ہونے کے ناطے میں نے بہت مشکلات میں وقت گزارا جس طرح کہ ہر جونیئر اور ہر وہ عورت جو نیا نیا اپنا گھر بار بنانے کے مراحل سے گزرتی ہے اور پھروہ وہ بھی پنجاب میں صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والی عورت جس کوزیادہ تر اپنے آپ کو اپنے غلاف میں چھپ کر زندگی میں معاملات طے کرنے کی عادت ہوتی ہے ‘ کم از کم مجھے اپنا آپ منوانے اور اپنی قابلیت کا سکہ جمانے میں کئی سال گزرگئے مجھے یاد ہے میرا نشر کیا ہوا پروگرام نو گاش وادی کشمیر میں اس قدر پسند کیا جاتا تھا کہ مقبوضہ کشمیر سے میرے لئے سامعین کے خطوط آتے تھے جو سنسر ہو کر مجھ تک پہنچا کرتے تھے نوگاش کا مطلب ہے صبح کی کرن اور میں صبح کا پروگرام اپنے سامعین کیلئے پیش کرتی تھی جس میں آزادی کی نوید کا واضح پیغام ہوتا تھا پورے ریڈیو سٹیشن میں میرے پاس وہ خطوط بڑے انمول ہوا کرتے تھے اگرچہ ان زمانوں میں ریڈیو پاکستان کے ہر ایک سٹیشن پر ڈاکیے بوریاں بھر بھر کر خطوط لایا کرتے تھے میری عادت تھی میں اپنے پروگرام کی ڈاک ضرور پڑھتی تھی اورپروگرام میں ان کے جواب بھی دیتی تھی زمانے کی گرد اور دھول سے نہ جانے وہ خطوط میں زندگی کی کس دراز میں چھوڑ کر آگے بڑھ گئی لیکن ذہن و دل پر یادوں کی دھول ذرا سے ہاتھ لگانے سے صاف اور صاف ہوتی ہی چلی جارہی ہے ایک نایاب اور انمول تحفہ آج تک ان دنوں کی یاد بن کر میرے پاس محفوظ ہے اور وہ مقبوضہ کشمیر سے میرے ایک سامع کی بھیجی ہوتی کشمیری شال ہے جو ہمارے ایک معزز سپیکر حمید مفتی میرے لئے ان الفاظ کے ساتھ لائے تھے کہ وادی کشمیر کے اس پار رہنے والے میرے ایک سامع بھائی نے میرے لئے یہ تحفہ بھیجا ہے اور بعد میں مجھے حمید مفتی نے بتایا تھا کہ جس شخص نے آپ کے لئے کشمیری سال کا تحفہ بھیجا تھا اس کے گھر پر ہندوستانی فوج نے حملہ کرکے ان کے گھر کے اندر گھس کر تمام اہل خانہ کو شہید کردیا تھا تب سے آج تک وہ کشمیری شال میرے شہید بھائی کی نشانی بن کر میرے ساتھ ہے میں اسکو بہت کم اوڑھتی ہوں اورسنبھال کر زیادہ رکھتی ہوں جناب سردار عبدالقیوم‘ جناب سکندر حیات اکثر ہی آزاد کشمیر ریڈیو تڑا کھل آکر فنکاروں‘ صداکاروں اور پیش کاروں کا حوصلہ بڑھاتے تھے ایک اور بات جو میرے حافظے میں ہمیشہ زندہ رہتی ہے سال میں دو دفعہ پاکستان آرمی کے ان فوجی بہادر جوانوں اور افسروں کا ہمارے ریڈیو اسٹیشن پر آنا اور پروپیگنڈا کی تربیت کے طورپر پورا دن گزارنا ہوتا تھا ایسے میں اپنے اپنے تجربات شیئر کئے جاتے تھے سٹوڈیوز میں پروگرام کرنے کے طریقے بتائے جاتے تھے سکرپٹ رائٹنگ اور لائیو نشریات کو دیکھنے کے سیشن ہوتے تھے اور وہ اس قدر متاثر ہو کر واپس اپنی یونٹ میں جاتے تھے کہ وہ ستائش سب کو سرشار کر دیتی تھی آج بھی ریڈیو پاکستان کا یہ پروپیگنڈا اسٹیشن موجود ہے اس کا کشمیری ترانہ بغیر شکریے کے ہر جگہ سے نشر ہوتا ہے بس ریڈیوپاکستان کی قدر اور عزت قدر کرنے والے دنیا سے کنارہ کر چکے ہیں۔