سائنسدانوں نے مصنوعی ذہانت کی نئی شکل پیش کردی

جنوبی کوریا: مستقبلیاتی ٹیکنالوجی کے ممتاز سائنسدانوں نے مصنوعی ذہانت یا اے آئی کی ایک نئی صورت پیش کی ہے جسے ’آرٹیفیشل ایموشنل انٹیلی جنس‘ کا نام دیا گیا ہے اور فائیوجی مواصلاتی ٹیکنالوجی کے ملاپ سے یہ ایک نئے انقلاب کو جنم دے سکتی ہے۔

یہ احساسات کی شناخت کرنے والا ایک نظام ہے لیکن اس کے بہت سے استعمال کے ساتھ اس سے کئی سیکیورٹی مسائل بھی وابستہ ہوسکتےہیں۔

اس میں مواصلاتی ٹیکنالوجی اور اے آئی کو ملایا جائے گا جس کے بعد انسانوں، مشینوں، اشیا اور آلات کو باہم ملایا جائےگا۔ اس کے بعد ازخود چلنے والے کاروں، اسمارٹ ڈرون اور صحت کی سہولیات کو ایک نیا زاویہ ملے گا۔

نیشنل یونیورسٹی آف کوریا کے پروفیسر ہیونبوم کِم کہتے ہیں کہ فائیو جی کی بدولت لوگوں کے جسم، چہرے اور لمس کو محسوس کرکے ان کے احساسات معلوم کئے جاسکیں گے۔

اس طرح کسی جلد باز ڈرائیور اور یا ذہنی تناؤ کے شکار پائلٹ کی شناخت ہوسکے گی۔ اسی طرح خودکشی کی جانب گامزن یا انتہائی مایوس شخص کی شناخت بھی کی جاسکے گی۔

اگر گاڑی کا ڈرائیور کسی طرح کی تھکاوٹ کا شکار ہوتا ہے تو فوری طور پر کار اس کا احساس کرکے ازخود پورا انتظام اپنے ہاتھ میں لے سکے گی۔

پروفیسر کِم نے فائیوجی وی ای ایم او سسٹم بھی بنایا ہہے جو پانچ طرح کے جذبات کا خیال رکھتا ہے جن میں خوشی، مزہ، معتدل، اداسی اور غصہ شامل ہے۔

اب مختلف افراد سے حاصل ہونے والی معلومات کو ایک ڈیٹابیس میں رکھ کر کسی ممکنہ خطرے کی پیشگوئی کی جاسکے گی۔

اب اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ فائیو جی کی بدولت نیٹ ورکس کو اس قابل بنایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی خامیوں اور ہیکنگ جیسے عوامل کا ازخود اندازہ لگا کر اس کی اطلاع مرکزی نظام کو دے سکیں گے۔

اس کے علاوہ فائیو جی کی بدولت ای کامرس، روزمرہ معمولات کی آٹومیشن اور دیگر پہلوؤں کو بہت حد تک ممکن بنانے میں بھی مدد ملے گی۔ تاہم اس کا مرکزی میدان انسانی احساسات اور جذبات ہی رہے گا۔