روزا لوئس میکالی پارک۔۔۔

 جبر کی طاقتوں سے آزادی حاصل کرنے کی کہانیاں درد ناک تاریخ کا حصہ ہیں افریقن امریکن کئی نسلوں سے گوروں کے غلام چلے آتے تھے بیسویں صدی کے وسط اور آخیر تک بھی کالوں کیلئے علیحدہ سکول‘ علیحدہ بسیں علیحدہ واش روم‘ رہائش کے علیحدہ علاقے اور زندگی کا ہر طریق علیحدہ ہو کر مہذب دنیا کی طرف سے رنگت کی بناءیہ پیغام دیا جاتا تھا کہ تم ہمارے غلام ہو ہمارے برابر نہیں ہو حقارت ذلت اور شرمندگی تمہارے نصیب میں تمہاری آل اولاد کے نصیب میں ہم نے لکھ دی ہے یکم دسمبر1955 کی تاریخ تھی وہ اپنے دفتر سے تھکا دینے والے دن کے ساتھ نکلی سخت سردی بھی تھی اس نے کلیونڈ ایونیو(البامہ) سے حسب معمول اپنی بس پکڑی اور یہ اس کی بدقسمتی تھی کہ وہ اس سیٹ پر بیٹھ گئی جو گورے لوگوں کیلئے مخصوص تھی ڈرائیور گورا تھا ڈرائیور کو ان دنوں پولیس افسر کے اختیارات حاصل ہوتے تھے وہ کالوں کیساتھ ہر ظلم و ستم رکھنے کا قانونی حق رکھتا تھا ہر کالا بندہ ڈرائیور کو کرایہ دیتا اور دوبارہ بس سے اتر کر پچھلے دروازے سے اپنی مخصوص کالوں کی سیٹوں پر بیٹھ جاتا ڈرائیور چاہتا تو گوروں کیلئے کالوں کو بس سے اتار سکتا تھا روزا پارکس گوروں کی سیٹ پر بیٹھ چکی تھی اسکو علم تھا لیکن سخت تھکاوٹ کے باعث وہ نہ اٹھی ڈرائیور نے بس روک دی اور اسکو پیچھے جانے کیلئے کہا روزا پارکس نے انکار کردیا ڈرائیور نے پولیس کال کرلی اور پولیس آفیسر اس جرم کی بناءپر روزا پارکس کو پولیس اسٹیشن لے گیا جہاں شام کو اسکی ضمانت ہوگئی لیکن کورٹ نے اسکو اس وقت کے لحاظ سے بھاری جرمانہ عائد کردیا کیونکہ وہ گناہ کی مرتکب ہوئی تھی افریقن امریکن کے ہزاروںلاکھوں لوگوں کیلئے یہ بہت بڑی تذلیل تھی انہوں نے کالوں کی چرچ میں اپنا اجلاس کیا اور اس حقارت کی زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے لائحہ عمل طے کیا مارٹن لوتھرکنگ اسی چرچ کا پادری تھا اس کے باپ دادا بھی اسی چرچ میں پادری رہ چکے تھے اس نے اپنی تمام تر تعلیم کالوں کے خاص سکولوں سے حاصل کی تھی اپنی تھیالوجی کی یونیورسٹی کی ڈگری اور پی ایچ ڈی بھی انہی یونیورسٹیوں سے حاصل کی تھی وہ بہادر اور اعلیٰ قائدانہ صلاحیتیں رکھنے والا جوان تھا جب آزادی کی اس تحریک کا اسکو سربراہ بنایا گیا تو اسکو اسوقت شاید احساس بھی نہ تھا کہ وہ اپنی افریقن برادری کیلئے مہذب دنیا کے گوروں سے کیسی ٹکر لینے نکل پڑا ہے روزا پارکس منٹگمری ٹرانزٹ کی بس سے سفر کر رہی تھی یہ ان کے علاقے کا نام تھا روزا پارکس اور اسکے شوہر کو اس گناہ کی پاداش میں نوکریوں سے نکال دیاگیا مارٹن لوتھرکنگ کی رہنمائی میں تمام کالے لوگوں نے بسوں کابائیکاٹ کردیا لوگ ٹیکسیاں لے لیتے لیکن بس ہر نہ بیٹھتے پہلے تو گوروں کی یہ ٹرانزٹ بسیں اسکو ایک وقتی غبار سمجھیں پھر انہوں نے ٹیکسی والوں کے لائسنس کینسل کرنا شروع کئے کالوں نے 20-20 میل تک روزانہ پیدل چلنا شروع کر دیا بسیں آتی کھڑی ہوتی اور خالی روانہ ہو جاتیں یہ اک ایسا حتجاج تھا جس نے ٹرانزٹ کمپنی کا فنانشل دیوالیہ کردیا لیکن مارٹن کوتھرکنگ نے عدالت میں اس قانون کے خلاف مقدمہ دائر کردیا کہ اس ملک کے قانون کے صفحات سب امریکن کیلئے ایک جمہوریت کے دعوے دار ہیں لیکن قانون ہونے کے باوجود ہم اور ہماری نسلیں غلام بننے پر مجبور ہیں عدالت سے فیصلہ آتے آتے ایک سال گزر گیا کالوں نے اپنا احتجاج ختم نہ کیا روزا پارکس اور اسکا خاوند نوکری نہ ملنے کی وجہ سے شہر چھوڑ کر مشی گن منتقل ہوگئے اور وہاں انکو ایک نوکری ملی روزا پارکس امریکہ میں انسانی حقوق کی تنظیموں کیلئے کام بھی کرتی تھی اور بیسویں صدی کی سب سے بڑی ایکٹوسٹ کے طورپر ابھر کر سامنے آئی تھی بعدازاں اسکو اسکی خدمات کے عوض صدر امریکہ بل کلنٹن نے صدارتی میڈل سے نوازا تھا اور ٹائم میگزین نے 20ویں صدی کی بااثر ترین شخصیات میں شامل کیا تھا مارٹن لوتھرکنگ نے آزادی کے اس سفر سے اپنی جدوجہد اور شہرت کا آغاز کیا1957ءسے 1968ءتک اس نے جدوجہد کے اس رستے پر ساٹھ لاکھ میل کا سفر کیا 2500 کے قریب انقلابی تقاریر کیں اس نے نیگروز(افریقن امریکن لوگ) کے انقلاب کا منشور بنایا اسکا ہر مارچ امن پسندی کیلئے ہوتا تھا جس میں ہزاروں لاکھوں شریک ہوتے تھے اس میں وہ ہمدرد دل رکھنے والے گورے لوگ بھی شامل ہوتے تھے جو کالوں کی حقارت‘ ذلت اور شرمندگی کے ان متعصبانہ قوانین کو بری نظر سے دیکھتے تھے مارٹن لوتھرکنگ کی تقاریر اور احتجاج نے امریکہ ہلا کر رکھ دیا تھا بیسویں صدی بظاہر تعلیم یافتہ‘ روشن نظر‘ ٹیکنالوجی کی صدی کہلاتی ہے لیکن کالے لوگوں کو اس صدی میں اپنی اس شرمناک غلامی کیلئے جدوجہد کرنا پڑی جو ان کے آباﺅاجداد صدیوں سے برداشت کرتے آتے تھے مارٹن لوتھرکنگ نے اپنے حسین خوابوں کو مہذب دنیا کے نام نہاد روشن نظر لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی اس کی ایک تقریر” میرا بھی اک خواب ہے“ تاریخ کے صفحات کا روشن باب ہے لاکھوں لوگوں کے مجمع سے مخاطب ہو کر اس نے کہا”100سال پہلے بھی نیگرو غلامی کی زندگی جی رہا تھا اور آج100سال بعد بھی اسکی زندگی تباہ حاصل ہے یہ احتجاج لاکھوں نیگروز کیلئے روشنی کی ایک کرن ہے جو سفید لوگوں کی ناانصافی کا شکار ہیں امریکہ کا قانون کہتا ہے کہ ہم سب برابر ہیں لیکن امریکہ نے اپنے نیگرو عوام کو اک ایسا چیک دے دیا ہے جو ہر بار بینک سے واپس آجاتا ہے کہ یہ فنڈز موجود نہ ہونے کی وجہ سے کیش نہیں ہو سکتا آج ہم اس چیک کو کیش کروانے کیلئے جمع ہوئے ہیں ہماری آزادی کی پیاس کو نفرت کا پیالہ مت دو یہ انقلاب امریکی عوام کی بنیادیں ہلاتا رہے گا ہم کبھی مطمئن نہیں ہو سکتے جب تک پولیس اپنا ظلم و ستم ہم پر روا رکھے گی ہم کبھی مطمئن نہیں ہو سکتے جب ہمارے بچے فاروائٹس اونلی پڑھتے رہیں گے میرے دوستو! میرے کچھ خواب ہیں کہ یہ قوم ایک دن سچے طریقے سے اٹھے گی میرا خواب ہے کہ جارجیا کی سرخ پہاڑیاں ہوگی ایک پرانے غلام کا بیٹا اور ایک پرانے غلام کے مالک کا بیٹا اکٹھے بیٹھے ہونگے میرا خواب ہے کہ مسی سیپی کی ریاست کو ناانصافی کی حدت سے پسینہ آجائے گا میرا خواب ہے کہ میرے چاروں بچے اپنے رنگ نہیںبلکہ اپنے کردار کی وجہ سے پہنچانے جائینگے میرا خواب ہے کہ البامہ کے چھوٹے کالے بچے گوروں کے چھوٹے بچوں کیساتھ ہاتھ سے ہاتھ ملائے بھائی بہنوں کی طرح کھیلیں گے میراب خواب ہے کہ ایک دن ساری وادیاں ساری پہاڑیاں‘ سارے پہاڑ سرنگوں ہو جائینگے سخت چٹانیں نرم پڑ جائینگی ٹیڑھے راستے سیدھے ہو جائینگے ہم ایک یقین کے ساتھ کام کرینگے عبادت کرینگے اے آزادی کی سرزمین میں تیرا گیت گاتا ہوں وہ سرزمین جہاں میراباپ مرا تھا گر امریکہ بڑی طاقت ہے تو یہ خواب ایک دن سچ ہوگا“ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ انقلابیوں نے جدوجہد کی اور امریکہ کی سپریم کورٹ نے381 دن بعد فیصلہ دیا کہ نیگروز کے خلاف تمام قوانین امریکہ کے قانون خلاف ہیں نیگروز کو ان کا حق مل چکا تھا احتجاج ختم ہو گیاتھا مارٹن لوتھرکنگ کی قیادت میں کالوں نے عظیم جدوجہد کی اور فتح پائی آج بھی وہ مارٹن لوتھرکنگ کے ان گنت خوابوں کو سچ ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں وہ کہ جسکو دنیا کے سب سے کم عمر انسان کے طورپر نوبل پیس پرائز سے نوازا گیا اور اک انجانی گولی نے اسکو1968ءمیں ہمیشہ کیلئے خاموش کردیا۔