صوبے ضم اضلاع کا شیئر دیں، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا

 

پشاور:وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے ضم اضلاع میں صنعتی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور عوام کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے سلسلے میں اکنامک زون ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی کو ضم اضلاع میں انڈسٹریل اسٹیٹس کے قابل عمل منصوبوں کی نشاندہی کرنے کی ہدایت کی ہے۔

 اْنہوں نے متعلقہ حکام کو ضم اضلاع کے تمام بڑے ہسپتالوں میں بائیو میٹرک سسٹم کا اجراء کرنے، سرکاری سکولوں کے قیام کے جاری منصوبوں پر کام تیز کرنے، ضرورت کی بنیاد پر متعلقہ منتخب عوامی نمائندوں کی مشاورت سے نئے سکولوں کے قیام کے نئے منصوبے تیار کرنے جبکہ ان اضلاع میں چھوٹے پن بجلی گھروں کے قیام کیلئے قابل عمل منصوبوں کی نشاندہی کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔

 اسی طرح وزیر اعلی نے تمام ضم اضلاع میں دو سالوں سے زائد ایک ہی عہدے پر تعینات سرکاری ملازمین کے تبادلوں کا عمل پندرہ دنوں میں مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔

 وہ گزشتہ روز ضم اضلاع کے ترقیاتی منصوبوں اور عوامی مسائل کے حل سے متعلق منعقدہ اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔

 ضم اضلاع سے منتخب اراکین صوبائی اسمبلی کے علاوہ متعلقہ محکموں کے انتظامی سیکرٹریز اور دیگر اعلیٰ حکام نے اجلاس میں شرکت کی۔

 وزیر اعلیٰ نے ضم اضلاع کی ضلعی انتظامیہ کو مقامی سطح کے عوامی مسائل کے بروقت حل کے لئے کھلی کچہریوں کے باقاعدہ انعقاد کو یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کھلی کچہریوں میں عوام اور منتخب عوامی نمائندوں کی شرکت کو یقینی بنایا جائے اور متعلقہ منتخب عوامی نمائندوں کو پیشگی اطلاع دی جائے تاکہ ان کچہریوں کے انعقاد کے مقاصد کا حصول ممکن ہو سکے۔

 وزیراعلیٰ نے اس موقع پر ضم اضلاع میں بجلی کے ٹرانسفارمرز اور پولز کی خریداری اور بجلی سے جڑے دیگر مسائل کے حل کیلئے اگلے سالانہ بجٹ  میں تمام حلقوں کے لئے فنڈز فراہم کرنے کی یقین دہانی کرتے ہوئے اس مقصد کیلئے متعلقہ حکام کو باضابطہ سکیم تیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔

 اْنہوں نے تمام ضم اضلاع میں ترقیاتی فنڈز کی سو فیصد یوٹیلائزیشن یقینی بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی کوتاہی اور سست روی برداشت نہیں کی جائے گی۔

 وزیراعلیٰ نے کہاکہ ضم اضلاع میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لئے اے ڈی پی اور اے آئی پی کے تحت رواں بجٹ میں مجموعی طور پر 83 ارب روپے سے زائد رقم رکھی گئی ہے۔

 وزیراعلیٰ نے کہاکہ خیبر پختونخوا حکومت اور وفاقی حکومت اپنے وعدوں کے مطابق قبائلی اضلاع کے لئے این ایف سی میں سے اپنے حصے کا شئیر دے رہی ہے دیگر صوبوں کو بھی چاہیے کہ وہ این ایف سی ایوارڈ میں سے ضم اضلاع کیلئے اپنا شیئر فراہم کرنے کے حوالے سے اپنا وعدہ پورا کریں جس کے لئے صوبائی حکومت ہر فورم پر موثر انداز میں آواز اٹھا رہی ہے۔

 وزیراعلیٰ نے کہا کہ اورکزئی میں کیڈٹ کالج کے قیام کی پہلے سے منظوری دی جا چکی ہے جبکہ آئندہ اے آئی پی میں ضلع کیلئے روڈ کمیونیکشن کا میگا منصوبہ بھی شامل کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں صوبائی حکومت تیراہ میں اودیہ سازی کی کمپنی کے قیام کیلئے بھی نہایت سنجیدہ ہے جبکہ تیراہ میں سپورٹس گراؤنڈز کے قیام کیلئے محکمہ کو ہدایت جاری کی جا چکی ہے۔ 

اس موقع پر اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ تیراہ کو سب ڈویژن کا درجہ دینے کے سلسلے میں سمری تیار کر لی گئی ہے جو ممکنہ طور پر کابینہ کے اگلے اجلاس میں پیش کر دی جائے گی۔ وزیراعلیٰ نے اس موقع پر ضلع کرم میں مختلف صحت سہولیات کی اپ گریڈیشن کیلئے اقدامات اْٹھانے اور دو گرلز ہائیرسیکنڈری سکولوں کے قیام کی ضرورت سے اتفاق کیا ہے۔

 زرعی زمین کو محفوظ بنانے کیلئے دریائے کرم پر حفاظتی دیوار کی تعمیر کیلئے بھی اقدامات زیر غور ہیں۔ مزید بتایا گیا کہ ضم اضلاع میں سپورٹس گراؤنڈز کی تعمیر کیلئے ایک علیحدہ منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے۔ جنوبی وزیرستان میں 70 کروڑ روپے کی لاگت سے چلغوزہ کی کاشت کی جارہی ہے اس کے علاوہ اخروٹ کی شجرکاری اور زیتون کی قلم کاری بھی کی جارہی ہے۔ 

اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ مختلف ضم اضلاع میں سکولوں کے قیام کے حوالے سے 100کے قریب پی سی ونز موصول ہو چکے ہیں جن پر اگلے مہینے عملی کا م شروع کردیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ضم اضلاع کے محکمہ بلدیات میں خالی آسامیوں پر بھرتی بھی ایٹا کے ذریعے عمل میں لائی جارہی ہے۔

 اْنہوں نے کہاکہ سابقہ فاٹا کے پراجیکٹ ملازمین کی مستقلی کے معاملے پر کام جاری ہے، رواں سال جون سے پہلے اس سلسلے میں حتمی فیصلہ سامنے آجائے گا۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ نے کوئی مور اور ترانو آبشار (ضلع باجوڑ)، شوال (شمالی وزیرستان) اور دیگر سیاحتی استعداد کے حامل مقامات کو بطور سیاحتی مقامات ترقی دینے کیلئے بھی ضروری اقدامات اْٹھانے کی ہدایت کی ہے۔