عمر کوٹ کے باشندے میں ’شاہ جہاں‘ کی روح آگئی

یہ تو سب ہی مانتے ہیں کہ مغل بادشاہ شاہجہاں کا بنایا تاج محل دنیا بھر میں محبت کی سب سے بڑی نشانی ہے۔

اِس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ پیار کی یہ یادگار ایک شوہر کی اپنی بیوی سے محبت کا انوکھا اور دلفریب اظہار ہے۔

فائیو سٹار ہوٹلوں کے مالک ہوں یا چائے کی پتی بیچنے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں، چاول کے بیوپاری ہوں یا انڈیا پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں مٹھائی کی دکانیں کھولے حلوائی، یہ سب تاج محل اور اُس سے منسوب محبت کی لازوال داستان کے نام لیوا ہیں۔

سفید سنگِ مرمر کی اِس عمارت پر کتابیں لکھنے والے تاریخ دان ہوں یا اِس کہانی پر فلمیں بنانے والے ہدایت کار، تاج محل کو اپنی شاعری کا موضوع بنانے والے شاعر ہوں یا اُن کے شعروں پر آہیں بھرتے ناکام عاشق، سب ہی مغلیہ سلطنت کے پانچویں تاجدار شہاب الدین محمد شاہجہاں کی بنوائی گئی اس یادگار کے سحر میں جکڑے نظر آتے ہیں۔

لیکن اب 400 سال بعد ایک اور ’شاہجہاں‘ نے آگرے والی اُس مشہور یادگار سے کوئی 800 کلومیٹر دور سندھ کے صحرا میں ایک نیا ’تاج محل‘ کھڑا کر دیا ہے۔

آئیے اِس ’ماڈرن ڈے‘ شاہجہاں سے ملنے پاکستان کے ضلع عمر کوٹ کے گاؤں ڈھیبو چلے چلتے ہیں۔

 

اِس گاؤں میں آپ کسی بھی رستہ چلتے شخص سے پوچھیں کہ وہ صاحب کہاں رہتے ہیں جنھوں نے تاج محل بنایا ہے تو کوئی آپ کو حیران آنکھوں سے نہیں دیکھے گا۔

اگر وہ پیدل ہوا تو اشارے سے اور اگر سائیکل یا موٹر سائیکل پر ہوا تو آپ کے ساتھ چل کر گھر کے دروازے تک چھوڑ کر آئے گا۔

لمبی سفید داڑھی والے پینسٹھ سالہ عبدالرسول پلی کو یہاں ہر کوئی جانتا ہے۔ ویسے تو وہ علاقے کے بڑے زمیندار اور نو ہزار ایکڑ زمین کے مالک ہیں لیکن اُن کی اصل وجہِ شہرت وہ عمارت ہے جو انھوں نے گاؤں کے قبرستان میں بنوائی ہے۔

 

 

 

تعلیم کے لحاظ سے وکیل، پیشے سے زمیندار اور دل کے گھمکڑ عبدالرسول سنہ 1980 میں پہلی بار انڈیا گئے تو آگرہ پہنچتے ہی اپنے انڈین دوست سے تاج محل دیکھنے کی فرمائش کر ڈالی۔

وفا شعار دوست نے پاکستانی مہمان کو جمنا ندی کے کنارے بنی دنیا کی سب سے مشہور عمارت کے سامنے لا کھڑا کیا۔ عبدالرسول پر سفید سنگِ مرمر کی عمارت نے ایسا جادوئی اثر کیا کہ وہ کافی عرصے تک اُس سے باہر نہ نکل سکے۔

وہ عمر کوٹ لوٹے تو سوتے میں خواب بھی تاج محل کے دیکھنے لگے۔ بیوی سے ذکر کیا تو سادہ لوح دیہاتی عورت نے کہا تم تاج محل دیکھ کر آئے ہو اِسی لیے ایسے خواب آ رہے ہیں۔

 عبدالرسول پلی کی شادی ہوئی تو وہ 18 اور اُن کی شریکِ حیات مریم چالیس برس کی تھیں۔ دونوں کی عمروں میں فرق کے باوجود اُن کی 'ارینجڈ میرج' تھوڑے ہی دنوں میں'لَو میرج' میں بدل گئی۔

مریم پڑھی نہیں تھیں لیکن قرآن کی تلاوت جانتی تھیں۔ اُردو اور سندھی کتابیں بھی پڑھ لیتی تھیں۔ وہ گاؤں دیہات کی اکثر عورتوں کی طرح گھر سنبھالتی تھیں، سلائی کڑھائی کرتی تھیں اور کھانا پکاتی تھیں۔

اُن کے ہاتھ کے پکے لذیذ کھانوں کا مزا آج بھی عبدالرسول کی زبان پر ہے۔

 

اپنی محبوب بیوی کے ساتھ گزارا گیا وقت عبدالرسول کو آج بھی یاد ہے۔ دونوں ساتھ سفر کیا کرتے تھے۔ حیدرآباد میں رانی باغ اور جامشورو کی سیر کرتے، ریستورانوں میں کھانا کھاتے اور سنیما میں فلم دیکھتے تھے۔ عبدالرسول مریم کے لیے شاپنگ بھی کرتے تھے۔ اُن کی چوائس مریم کو پسند آتی۔

 

 

 

ایک بار انھوں نے مریم کو کنگن لا کر دیے۔ جب وہ پہننے لگیں تو عبدالرسول نے فلم ’ریشم کی ڈوری‘ کا محمد رفیع کی آواز میں گایا گیا یہ گیت گُنگنایا:

یہ بول سُن کر مریم شرما گئی تھیں۔

 زندگی کے 40 سال یوں ہی پلک جھپکتے گزر گئے کہ سنہ 2015 میں ایک دن اچانک مریم بے ہوش ہو گئیں۔ گھر والے اُنھیں کراچی اور حیدرآباد کے کئی بڑے ہسپتالوں میں لے گئے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ اُنھیں سٹروک ہو گیا ہے۔

بیماری کے دنوں میں عبدالرسول ہر وقت مریم کے ساتھ رہے۔ دوا کھلاتے اور دیکھ بھال کرتے۔ مریم بھی ایک منٹ اُن سے دور رہنا نہیں چاہتی تھیں۔

علاج کئی ہفتے چلا لیکن ایک دن جب عبدالرسول سو کر اُٹھے تو دیکھا کہ اہلیہ بے ہوش پڑی ہیں۔ بہت کوشش کے بعد بھی وہ ہوش میں نہیں آئیں اور اِسی طرح دنیا سے چلی گئیں۔

 

 

بیوی کی وفات کے چند دن بعد ہی عبدالرسول کو برسوں پُرانا خواب یاد آیا۔ بس پھر کیا تھا۔ انھوں نے ٹھان لی کہ شاہجہاں کی طرح وہ بھی بیوی کے لیے ایک یادگار تعمیر کریں گے۔

دل کی سُن کر عبدالرسول نے ارادہ تو کر لیا لیکن مغل بادشاہ کے خزانے کا مقابلہ کہاں کر پاتے۔ فیصلہ کیا کہ وہ 20 فٹ اونچا اور 18 فٹ چوڑا چھوٹا تاج محل بنائیں گے۔

جہاں شاہجہاں نے 20 ہزار کاریگروں اور مزدوروں کی فوج جمع کی تھی وہاں بہت ڈھونڈنے پر عبدالرسول کے ہاتھ گاؤں کی مسجدیں بنانے والا مستری ہی لگ سکا۔

 

لیکن عبدالرسول نے ہمت نہ ہاری۔ پرانی تصویروں کے البم سے انڈیا یاترا کی دھندلی تصویر نکالی اور بیوی کی محبت اور مستری شیر محمد کے ہنر کے بھروسے مقبرے کی تعمیر شروع کر دی۔

عبدالرسول اور شیر محمد نے ذہن میں عمارت کا نقشہ تیار کیا، زمین پر لکیریں لگائیں اور بنیادوں کی کھدائی شروع کر دی۔ عبدالرسول تمام دن ہاتھ میں تاج محل کی تصویر تھامے مزدوروں کے ساتھ کھڑے ہو کر کام کرواتے۔

جیسے جیسے عمارت کی دیواریں اونچی ہوتی گئیں، مخالفت کی آوازیں بھی بلند ہوتی گئیں۔ کسی نے اِسے بدعت قرار دیا تو کوئی اِسے فضول خرچی سے تعبیر کرنے لگا۔ لیکن عبدالرسول نے منع کرنے والوں کی ایک نہ سُنی۔

 

عبدالرسول دل کے تو شاہ تھے لیکن جیب کے نہیں۔ پھر بھی اِس وجہ سے کبھی کام رُکا نہیں۔ جیسے جیسے اُن کی زمینوں کی آمدنی آتی گئی، وہ خرچ کرتے گئے۔

’مِنی تاج محل‘ کی دیواریں اور گنبد تیار ہوئے تو اُن پر پتھر لگانے کا مرحلہ آیا۔ شاہجہاں نے تو اپنے شاہکار کے لیے سفید سنگِ مرمر ہاتھیوں پر لدوا کر راجستھان سے منگوایا تھا، لیکن عبدالرسول کی پہنچ میرپور خاص اور حیدرآباد ہی تک تھی جہاں سے ماربل اور سرامک ٹائلز دھواں اُڑاتی سوزوکیوں پر لائے گئے۔

جہاں شاہجہاں کا تاج محل بننے میں 22 برس لگ گئے، وہاں عبدالرسول کا ماسٹر پیس صرف چھ ماہ میں بن کر تیار ہو گیا۔ اُنھوں نے مستری سے اخراجات کا حساب مانگا تو معلوم ہوا عمارت پر 12 لاکھ روپے خرچ ہو چکے ہیں جبکہ شاہجہاں نے اپنے شاہکار پر تین کروڑ لُٹائے تھے۔

 

عبدالرسول پلی کا تاج محل دِکھنے میں کچھ کچھ شاہجہاں کے تاج محل جیسا تو ہے لیکن بہرحال اصل نہیں ہے۔ مگر اُن کے لیے یہی سب کچھ ہے۔

اب وہ اپنا زیادہ وقت یہیں گزارتے ہیں اور بیوی کے ساتھ بِتائے دنوں کو یاد کرتے ہیں۔ اُنھیں گھر سے زیادہ سکون اپنی ’ممتاز محل‘ مریم کے مرقد پر ملتا ہے۔

وہ اکثر تنہائی میں میر تقی میر کا یہ شعر دُہراتے ہیں۔

مصائب اور تھے پر دل کا جانا

عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے

 

 

شاہجہاں کا تاج محل عجائباتِ عالم کی زینت ہے تو کیا ہوا، عبدالرسول پلی کا ’مِنی تاج محل‘ بھی کسی عجوبے سے کم نہیں۔ اب یہ عمر کوٹ کی ایک مقامی ’ٹورسٹ اٹریکشن‘ بن چکا ہے۔ لوگ دور دور سے اِسے دیکھنے آتے ہیں۔

شادی شدہ مرد شکایت کرتے ہیں کہ اب اُن کی بیویاں بھی فرمائش کرتی ہیں کہ اُن کے مرنے پر ایسا ہی تاج محل بنوایا جائے۔

منچلے نوبیاہتا جوڑے یہاں شادی کا فوٹو شوٹ کرواتے ہیں۔ اب اُنھیں تاج محل کے سامنے تصویر بنوانے کے لیے آگرے جانے کے جتن نہیں کرنے پڑتے کیونکہ آگرہ خود چل کر اُن کے پاس آ گیا ہے۔