فروری کے کچھ یادگار دن 

 فروری کا مہینہ گزر گیا مگر اس سے وابستہ دنوں کی یادیں پیچھے چھوڑ گیا ہے ، کتنے ہی یادگار دن بھی ساعتوں کے ساتھ چلے آتے ہیں‘ اسی مہینے کشمیر کا دن منایا جاتا ہے اور برطانیہ کی سازش اور ہندوپاک کو سدا لڑانے کی دانستہ کوشش میں ایسا تنازعہ چھوڑ کر چلے جانا کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘ اور یہ سپرپاور اپنے اس مقصد میں پوری طرح کامیاب رہی کہ آج کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی مقبوضہ کشمیر کے لوگ مصیبت کا پہاڑ ہاتھوں میں تھامے سزاوار ہیں فروری کے مہینے میں ہی فیض احمد فیض بھی اپنی پوری رعنائیوں اور بلندیوں کے ساتھ طاقت ور و توانا شخصیت کے طورپر چلے آتے ہیں ان کی شاعری کی خوبصورتیاں اور رعنائیاں ایسی ہیں کہ کوئی شخص بھی ان کی گرویدگی سے نہیں نکل سکتا بحیثیت عظیم شاعر کے تو ہم سب ان کو جانتے ہیں لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا فیض احمد فیض صحافی استاد‘ براڈکاسٹر‘ سپاہی  ہونے کے ساتھ ساتھ کمیونزم  کے نظریئے سے اس حد تک متاثر تھے کہ انہوں نے 1947ء سے ہی پاکستان کمیونسٹ پارٹی بنائی تھی ان کے ساتھ یہ پارٹی بنانے والے سجاد ظہیر اور جلال الدین عبدالرحیم تھے کمیونزم نظریہ رکھنے کی وجہ سے فیض احمد فیض سوویت یونین(اور آج کا روس) کے مقبول دوست تھے سوویت یونین کے ادبی حلقوں میں ان کو ہمارا شاعر کہہ کر پکارا جاتا تھا وہ سمجھتے تھے کہ کمیونزم نظریہ انکو زیادہ موثر طریقے سے سوچنے اور محسوس کرنے کی طاقت عطا کرتا ہے روس میں مشہور شاعر یوگینی وی شنیکو ان کے دوستوں میں تھے کمیونسٹ  نظریئے کے حامل اورپاکستان میں کمیونسٹ پارٹی بنانے اور سوویت یونین کا دوست ہونے کے ناطے انہوں نے روس کا سب سے بڑا ایوارڈ لینن پیس ایوارڈ بھی عطا کیا گیا1950 میں فیض احمد فیض اس وفد میں شامل تھے جو وزیراعظم لیاقت علی خان کے ساتھ امریکہ گیا تھا وہاں فیض احمد فیض نے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی میٹنگ میں حصہ لیا جوسان فرانسکو میں منعقد ہوتی تھی آپ ورلڈپیس کونسل کے بھی ممبر تھے آپ کی وفات کے بعد روس کی حکومت نے آپ کو بھرپور عزت و تکریم سے نوازا لیکن پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کے خاتمے کے بعد آپ نے کمیونزم سے کنارہ کشی اختیار کرلی فیض احمد فیض پاکستان کے مشہور اخبار پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر رہے یہ اخبار1950 ء کی دہائی کا مقبول ترین اخبار تھا پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے آپ برٹش انڈین آرمی میں سکینڈ لیفٹیننٹ تھے اور فیض احمد فیض نے پبلک ریلیشن کے شعبے میں اپنے فرائض انجام دیئے اور آپ تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے کپتان کے عہدے تک اور لیفٹیننٹ کرنل کے عارضی عہدے تک بھی پہنچے پاکستان بننے کے  بعد فیض احمد فیض نے پاکستان میں رہنا پسند کیا فیض احمد فیض کے اعزازات میں لینن پیس پرائز‘ لوئس پرائز فارلٹریچر شامل ہیں روس کے مشہور شہر کریملن میں ان کو اس اعزاز سے نوازا گیا جہاں انہوں نے خطاب بھی کیا جو اسی کے مجموعے دست تہہ سنگ کے دیباچے میں شامل ہے پاکستان نے ان کی اعلیٰ ترین خدمات کے بدلے میں 1990 میں نشان امتیاز کے سب سے بڑے اعزاز سے نوازا اور2011ء کو فیض احمد فیض کے سال کے طور پر منایا گیا میں نے خود فیض احمد فیض کی سب سے پہلی کتاب دست صبا پڑھی تو یہ ایک سحر انگیز کتاب تھی کہ مدتوں میں اسکی خوبصورتی اور رعنائی کے ساتھ ساتھ ہی رہی دست تہہ سنگ اور خاص طورپر ان کی نثر کی کتاب”صلیبیں میرے دریچے“کی انتہائی اعلیٰ درجے کی کتابیں ہیں جیل کی صعوبت خانوں سے اپنی بیوی ایلس فیض کو لکھے ہوئے خطوط  پڑھنے کے لائق ہیں انہوں نے اپنی بے شمار کتب میں ایسی بے شمار نظمیں لکھی ہیں جن کو مشہور گلوکاروں نے گایا ہے اور نام کمایا ہے آپ ذوالفقار علی بھٹو کی محبت میں کئی بار جلاوطن بھی ہوئے اور زندان میں بھی رہے فیض احمد فیض خود جن شعراء کرام سے متاثر تھے ان میں علامہ محمد اقبال اور مرزا اسد اللہ خان غالب تھے حیرت ہے غالب کا تاریخ وفات بھی فروری میں ہی ہے اردو اور فارسی کے عظیم شاعر جن کے مقابل کا شاعر آج تک پیدا نہ ہو سکا، ثمرقندبخارا سے تعلق رکھنے والے مغل خاندان میں پیدا ہونے والا مرزا غالب آگرہ دہلی میں پیدا ہوئے مرزا غالب کے آباؤ اجداد سلجوق ترک تھے جو ہجرت کرکے ہندوستان آتے تھے غالب نے 1857ء کی جنگ آزادی یا غدر آنکھوں سے دیکھا اور اس کے بعد کے حالات دیکھ دیکھ کر خون کے آنسو بہائے ایک ایسا عظیم شاعر جسکو زندگی میں اسکی بہترین شاعری کی بناء پر اعلیٰ درجے کے حسد اور بغض کی بناء پر پذیرائی دینے سے اجتناب برتاگیا لیکن روشنی کو تاریکیاں چھپانہیں سکتیں وہ بکھرنے کیلئے اندھیروں میں سے بھی اپنے راستے بنالیتی ہیں اور پھر دنیا بھر نے مرزا غالب کو ایسا اپنایا کہ بڑے سے بڑا شاعر بھی اسکا مداح ہی نکلا بازیچہئ اطفال ہے دنیا میرے آگے‘ ہوتا ہے شب وروز تماشا میرے آگے‘ قیدوحیات وبندغم‘ اصل میں دونوں ایک ہیں‘ موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں‘ مرزا غالب کا ایک ایک شعر اتنا بھاری ہے کہ کوئی بھی اسکو نظر انداز کرکے آگے گزر نہیں سکتا مرزا غالب اپنے ذومعنی جملوں کیلئے کافی شہرت رکھتے تھے اور نصاب کی کتابوں میں ادیبوں کے حوالے سے ایسے کئی قصے شامل کئے گئے ہیں جن میں ان کے خوبصورت ذومعنی جملوں کو طالب علم پڑھ کر ادب کا اعلیٰ ذوق حاصل کرتے ہیں مرزا غالب کی کتاب جس کی میں ذاتی طورپر مداح بھی ہوں خطوط غالب ہے خطوط غالب کہ غالب کے وہ خطوط ہیں جو مختلف مواقع پر اپنی زندگی کے شب و روز میں انہوں نے اپنے ہم نواؤں کو لکھے ہیں یہ خطوط برطانیہ کے دور کی تاریخ کو ظاہر کرتے ہیں اور اس وقت کے حالات و واقعات کا احاطہ کرتے ہیں اور دوسری طرف آسان ترین الفاظ استعمال کرتے ہوئے نثر کا اعلیٰ ترین شاہکار ہیں خطوط غالب جیسی کتاب بھی اردو ادب میں کمیاب ہی ہے‘ مرزا غالب باوجود روپے پیسے کی کمی کے اور اس وقت کے سنگین حالات کے کہ جب انگریزوں کا ظلم و ستم عروج پر تھا ہمت جرات اور بہادری کی تصویر تھے شاید پٹھان اور ترک خون ان کی رگوں میں تھا کہ خودداری کا دامن کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور مسلسل زندگی کو گزارتے ہی چلے گئے آپ کا قلمی نام اسد تھا مجھے آج تک وہ مرثیہ نہیں بھولتا جو انہوں نے اپنے بھتیجے عارف کی موت پر لکھا تھا اور ہماری دسویں کی کتاب میں شامل تھا اور میں ہمیشہ اسکو پڑھ کر درد محسوس کرتی تھی وہ پہلی نظم تھی جس سے میں مرزا غالب جیسے عظیم شاعر سے روشناس ہوئی تھی۔