افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ جسے ( اے پی ٹی ٹی اے) بھی کہا جاتا ہے ایک باہمی تجارتی معاہدہ ہے جس پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2010ءمیں دستخط ہوئے تھے جس میں دونوں ممالک کے مابین سامان کی نقل و حرکت میں زیادہ سے زیادہ سہولیات اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاہدے پر راقم وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار کرتا رہا تاکہ قارئین کو اس معاہدے کے حوالے سے تازہ ترین پیش رفت کے بارے میں آگاہی ملتی رہے۔افغانستان تین کروڑ نفوس پر مشتمل ایشیاء کا ایک نہایت اہم ملک ہے پسماندہ ہونے کے باوجود امریکی فوج کی افغانستان میں موجودگی کی وجہ سے نہایت شہرت کا حامل ہے۔محل و قوع کے اعتبار سے چاروں اطراف سے خشکی میں گھرا ہوا ہے۔ خشکی کے راستے اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق جنیوا کنونشن 1958ءکے تحت پڑوسی ممالک پر سہولتیں مہیا کرنا لازمی قرا ردیا تھا۔ اقوام متحدہ کانفرنس آن ٹرید ڈویلپمنٹ نے 1964ءمیں پہلے اجلاس میں آٹھ رہنما اصولوں پر اتفاق کیا اور 2مارچ 1965ئ کو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ (ATTA)جو کہ15 شقوں پر مشتمل تھی ایک پروٹوکول جوکہ اس وقت کے پاکستان کے وزیر تجارت وحید الزمان اور افغانستان کے وزیرتجارت سرور عمر نے دستخط کئے تھے۔معاہدے کے تحت پانچ مقامات کو ٹرانزٹ ٹریڈ کیلئے مختص کیا گیاتھا۔ لیکن اس کے برعکس آخر کار امریکی سرکار کے ایماء پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان اکتوبر 2010ءکو افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کا نیا معاہدہ عمل میں لایا گیا۔ یہ معاہدہ58آرٹیکلز اور تین پروٹوکولز پر مشتمل دستاویز تھی اکتوبر 2010ءمیں پاکستان اور افغانستان کے درمیان سامان تجارت کی ترسیل کےلئے افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ (APTTA) امریکہ کے دباﺅ سے ہوا، اس نئے معاہدے میں این ایل سی کی جگہ بانڈڈ کیرئیر کو سامان تجارت کی اجازت دے دی گئی۔ اس کے علاوہ پاکستان ریلوے کو بھی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت آنے والے سامان تجارت کی ترسیل کی اجازت برقرار رہی، اس طرح یہ سامان پاکستان کی بندرگاہوں سے افغانستان تک ترسیل ہوتا رہا۔موجودہ معاہدہ 11فروری 2021کو ختم ہو گیا جبکہ پاکستان افغانستان کے درمیان راہداری تجارت کے معاہدے میں تین ماہ کی عارضی توسیع کر دی گئی ہے،مگر اسلام آباد اور کابل کسی نئے معاہدے پر اتفاق نہیں کرسکے ہیں وفاقی کابینہ کا گزشتہ دنوں اجلاس کے دوران 2010میں طے پانے والے افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے میں تین ماہ کی توسیع کی منظوری دی گئی۔ اس معاہدے کی مدت جمعرات 11فروری کو ختم ہوگئی ہے۔معاہدے کے تحت افغانستان، بین الاقوامی تجارت کیلئے پاکستان کی بندرگاہیں اور زمینی راستے استعمال کر سکتا ہے‘اسی معاہدے کے تحت افغانستان اپنا تجارتی سامان بھارت کو برآمد بھی کر سکتا ہے۔جب کہ پاکستان کے لیے وسط ایشیائی ممالک تک راہداری تجارت کی سہولت موجود ہے۔معاہدے کی تجدید کےلئے دونوں ممالک میں مذاکرات کے کئی ادوار ہو چکے ہیں لیکن اب تک کئی معاملات حل طلب ہیں امریکہ کے تعاون سے پاکستان اور افغانستان نے 1965میں طے پانے والے معاہدے کی جگہ 2010میں تقریبا نصف صدی بعد راہداری تجارت کا نیا معاہدہ کیا۔اب اس معاہدے پر نئے حالات کے تناظر میں نظر ثانی کی ضرورت ہے۔نیا تجارتی راہداری معاہدہ طے نہ ہونے پر دونوں ممالک کی تجارتی برادری کو تشویش ہو گئی ہے‘ تاہم راہداری تجارت کے معاہدے میں تین ماہ کی عارضی توسیع سے بین الاقوامی تجارت کی سرگرمیاں جاری رہیں گی۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی راہداری کے معاہدے کےلئے دونوں ممالک کے حکام کے کئی اجلاس ہو چکے ہیں۔ لیکن اب بھی بعض امور پر بات چیت جاری ہے۔پاک افغان تعلقات میں مزید بہتری لانے کےلئے وزیر اعظم عمران خان گزشتہ سال ماہ نومبرافغان صدر اشرف غنی کی خصوصی دعوت پر ایک روزہ دورے پر کابل گئے تو ایئرپورٹ پر ان کا استقبال افغان وزیر خارجہ محمد حنیف اتمر نے کیاتھا جس کے بعد وزیر اعظم عمران خان افغان صدارتی محل گئے جہاں افغان صدر اشرف غنی نے ان کا استقبال کیاتھا۔ افغان صدر سے ملاقات میں دونوں رہنماو¿ں نے باہمی دلچسپی کے دو طرفہ امور اور افغان مفاہمتی عمل پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔افغانستان چاہتا ہے کہ اسے واہگہ بارڈر کے راستے بھارت کے ساتھ دو طرفہ تجارت اور افغانستان سے تجارتی سامان لے جانے والے ٹرکوں کو بھارت میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے۔موجودہ معاہدے کے تحت افغان تجارتی سامان سے لدے ٹرک صرف واہگہ تک جا سکتے ہیں اور سامان اتارنے کے بعد انہیںخالی واپس لوٹنا پڑتا ہے۔اس سلسلے میں پاکستان کا اصولی مو¿قف یہ ہے کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان موجودتجارتی راہداری کا معاہدے دوطرفہ ہے۔ یہ معاہدہ سہ فریقی نہیں اس میں بھارت شامل نہیں۔اس معاہدے کے تحت پاکستان نئی دہلی کے ساتھ کشیدگی اور تناو¿ کے شکار تعلقات کے پیش نظر واہگہ کے راستے افغانستان کو دو طرفہ تجارت کی سہولت فراہم نہیں کر سکتا۔بھارت کا افغانستان میں اثر ورسوخ بھی پاکستان مخالفت پر مبنی ہے۔یہاں تک کہ بھارت نے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔بھارت نے پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے لئے افغانستان کو استعمال کیا ہے۔ بھارت نے کابل اور اسلام آباد کے مابین دوریاں اور تلخیاں پیداکرنے کےلئے بھی کام کیا ہے۔پاکستان وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ افغانستان کے راستے آزادانہ تجارت چاہتا ہے۔اس سلسلے میں ابھی تک کوئی معاہدے طے نہیں ہو سکا ہے۔ حکومتِ پاکستان افغانستان کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو مضبوط بنیادوں پر استوارکرنا چاہتی ہے اور پاکستان افغانستان کو دوسری منڈیوں تک رسائی دینے کے ساتھ ساتھ وسط ایشیائی ممالک تک رسائی چاہتا ہے۔پاکستان نئے راہداری معاہدہ سے وسط ایشیائی ریاستوں تک تجارت کے لئے بغیر کسی رکاوٹ کے رسائی چاہتا ہے۔فغانستان مال بردار ٹرکوں کو واہگہ کے راستے بھارت میں داخلہ چاہتا ہے۔ ان دومعاملات سمیت سیاسی وجوہات کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان نئے معاہدے میں تاخیر ہو رہی ہے۔پاکستان کے راستے ہونے والی افغان تجارت کے حجم میں بھی 50فیصد سے زائد کی کمی آئی ہے جبکہ ماضی میں پاک افغان تجارت کا حجم 2.5بلین ڈالرز تھا جو کہ اب کم ہو کر 1بلین ڈالرز سے بھی کم ہو گیا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 10سالوں میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈکے8لاکھ 32ہزار کنٹینرز پاکستان سے گزرے ہیں۔اس عرسے میں33ارب ڈالر مالیت کا سامان پاکستان سے گزرا، 10سال میں 30فیصد افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پاکستان کے زریعے ہوئی باقی ٹرانزٹ ٹریڈ ایران، ازبکستان اور تا جکستان کے زریعے ہوئی۔ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا 10سالہ معاہدہ28اکتوبر 2010کو کابل میں ہوا تھا اور معاہدے پر عمل درآمد کا آغاز 12فروری 2011سے ہواتھا۔افغان تاجر برادری کی خواہش کے مطابق کراچی بندرگاہ پر افغانستان کے تجارتی سامان کے کنٹینرز کی انسپیکشن کا عمل تیز کیا جا سکتا ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ اگر نئے تجارتی راہداری کے معاہدے میں اس معاملے کو حل کر لیا جائے تو پاکستان کے راستے افغانستان کی تجارت کے حجم میں ضافہ ہو سکتا ہے۔ سالانہ 75ہزار کے قریب کنٹینرز سامان لے کر کراچی سے افغانستان جاتے ہیں اور اس تعداد کو بھی بڑھایا جا سکتا ہے جبکہ دونوں ملکوں کی خواہش ہے کہ یہ تجارتی حجم 5بلین ڈالرز تک بڑھایا جا سکتا ہے۔پاکستان کے لئے ایک تشویش یہ ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ تجارت میں اب سرفہرست نہیں رہا اب پہلے نمبر پر ایران چلا گیا ہے۔پہلے یہ مقام پاکستان کو حاصل تھا۔افغان ٹریڈ میں پاکستان اب دوسرے درجے پر چلاگیا ہے۔پاکستان کے لئے یہ حیران کن بات یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ تجارت میں بھارت نے تیسری پوزیشن حاصل کر لی ہے۔پاکستان کے لئے اپنی سابقہ پوزیشن کی بحالی ضروری ہے اور افغانستان کو بھی اس پر اعتراض نہ ہو گا۔پاکستان خشکی سے گھرے ملک افغانستان کو کراچی کی بندرگاہ کے زریعے تجارت کی سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ 1992ء میں پاکستان نے اس معاہدے میں یک طرفہ ترمیم کرتے ہوئے سمگل شدہ اشیا کو واپس بھجوانے کا سلسلہ شروع کیا۔جس پر افغانستان کو اعتراض ہے۔2011ء میں دونوں ملکوں نے امریکہ کے تعاون سے راہداری تجارت کے معاہدے''اے پی ٹی ٹی اے''پر دستخط کئے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث اس معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔2018ء میں اقتدار میں آنے کے بعد سے عمران خان حکومت کی کوشش ہے کہ پاک افغانستان دوطرفہ تجارت کو فروغ ملے۔ 2019ء سے طورخم کی سرحدی گزرگاہ کو 24گھنٹے آمدورفت اور دو طرفہ تجارت کے لئے کھولنے کا یہی مقصد تھا۔ مگر اس کے باوجود دوطرفہ تجارت میں خاص پیش رفت نہیں ہوسکی۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت اور دوستی دونوں ممالک کے وسیع تر مفاد میں ہے۔اس میں رکاوٹ بھارت ہے۔افغان حکومت پر منحصر ہے کہ وہ کیسے اپنی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی بھارتی سازشوں سے بچتی ہے اور دونوں برادر ممالک کی حکومتوں اور عوام کو مزید قریب لانے کے لئے کیاتیز اقدامات کئے جاتے ہیں۔افغان ہمارے پختون اور مسلمان بھائی ہیں جو کہ تاریخی لحاظ سے گہرے خونی ، ثقافتی، زبانی اور مذہبی رشتوں میں منسلک ہیں اور دوستانہ اور اچھے تعلقات دونوں ممالک کے بہترین مفاد میں ہیںجس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف امن وامان کی صورتحال بلکہ تجارتی اور معاشی سرگرمیوں میں بھی بہتری آئے گی، لہٰذا پاکستان اور افغانستان کے درمیان اچھے تعلقات انتہائی ناگزیر ہیں اور دونوں ممالک کسی بھی صورت خراب تعلقات کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان دنیا کے دو ایسے ممالک ہیں کہ الگ الگ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے منسلک ہیں،امن ہو یا خوشحالی اور ترقی ایک دوسرے کے بغیر ممکن نہیں۔افغانستان کی تجارت کا زیادہ تر انحصار پاکستان پر ہے، لیکن سمگلنگ نے دونوں ممالک کی معیشت کو ایک طرح سے یرغمال بنا رکھا ہے۔ہمارے خیال میں دونوں ممالک کے ماہرین کو سرجوڑ کر بیٹھنے اور دہشت گردی اور سمگلنگ کی روک تھام کے لئے مشترکہ حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے،افغان حکومت کو یہ باور کروانا بہت ضروری ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے والے عناصر افغانستان کے بھی دوست نہیں ہیں، پاکستان میں بدامنی ہو گی تو افغانستان میں امن اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا،اس لئے لازم ہے کہ دونوں حوالوں سے مناسب فیصلے کئے جائیں۔وزیر اعظم پاکستان کا متوقع دورہ اس حوالہ سے اہم ہے، اس سے پورا فائدہ اٹھانا چاہیے۔