اس رات کے ٹو پہاڑ پر کیا ہوا اور تین حوصلہ مند‘ نڈر‘ بہادر‘ مہم جو زمین آسمان نگل گئے۔ سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا‘ 2020ء اور 2021ء ویسے بھی اموات اور ناگہانی آفات اور وباء کی بناء پر تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں لیکن پاکستان کے خوبصورت ترین اور بلند ترین پہاڑ پر فروری کے مہینے کی چوتھی رات کو جو واقعہ بھی ہوا اس کا گواہ کوئی بھی نہیں۔ آج میں آپ کو ایسی کہانی سنانے چلی ہوں جو اس شخص نے سنائی ہے جو فروری کی چوتھی رات کو اپنے کچھ جاپانی ساتھیوں کے ہمراہ کے ٹو پہاڑ پر موجود تھا اور نیچے واپس بیس کیمپ کی طرف سفر کر رہا تھا‘ اس مہم جو کا نام ”ایلیا سکلے“ ہے۔ ایلیا سکلے کینیڈا کے شہر اٹاوہ میں پیدا ہوا اور وہیں پر اپنی تعلیم و تربیت حاصل کی اس کے اندر بھی ایڈونچرز کی روح چھپی ہوئی ہے اور وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر مہم جوؤں کی فلمیں بناتا ہے وہ مہم جو جن کی منزل پہاڑ کی سب سے اوپر کی چوٹی ہوتی ہے اور ہزاروں میٹر اونچی چوٹیوں پر پہنچنے کیلئے وہ پورا پورا سال تربیت حاصل کرتے ہیں۔ سامان اکٹھا کرتے ہیں اور بہادری کے ریکارڈ قائم کرنے کیلئے پہاڑوں پر کمندیں ڈالنے نکل پڑتے ہیں۔ ایلیا سکلے بھی اپنے ٹیلی ویژن سیریز کیلئے ان مہم جوؤں کی ویڈیوز تیار کرتا ہے اور پہاڑوں سے محبت کرنے والوں کے ساتھ ہی بلندیوں کا سفر کرتا ہے‘ وہ تربیت سے لیکر چوٹی سر کرنے تک ہر تیاری ہر جذبے اور ہر جوش کے سفر میں کسی بھی مہم جو ماؤنٹسنیٹر سے کم نہیں ہوتا۔ اپنی بہترین ویڈیوز پر کئی بار کینیڈین سکرین ایوارڈ اپنے نام کر چکا ہے اور نیشنل جغرافیہ‘ این بی سی‘ بی بی سی‘ سی بی سی‘ ایچ بی او‘ ڈسکوری چینل اور بے شمار ٹیلی ویژن چینل سے ایلیا سکلے کی بنائی ہوئی عظیم پہاڑوں کی ویڈیوز اور شارٹ فلمیں ٹیلی کاسٹ ہو چکی ہیں۔ 2021ء میں وہ محمد علی سد پارہ‘ ساجد علی سید پارہ اور جان سنوری کی کلا ئمنگ اور مہم جوئی پر فلم بنانے جا رہا تھا اور 25 مہم جوؤں کی ٹیم کے ساتھ کے ٹو پہاڑ پر موجود تھا۔ اپنی کہانی بتاتے ہوئے لکھتا ہے کہ ہم گزشتہ کئی مہینوں سے فروری کے ان دنوں کا انتظار کر رہے تھے جب سرما کی تیز و تند ہواؤں میں منفی 75 کے منجمد سرد درجہ حرارت میں ہم نے کے ٹو کو سر کرنے کا کارنامہ سر انجام دینا تھا۔ محمد علی سد پارہ کے ساتھ کے ٹو پہاڑ کے ایک جاپانی کیمپ میں اپنے ماہر جاپانی ساتھیوں کے ساتھ دن اکٹھے گزار ے‘ یہاں منفی 35 درجہ حرارت تھا لیکن لگتا تھا کہ ہمارے ہاتھ پاؤں منجمد ہونے جا رہے ہیں۔ محمد علی سد پارہ نہایت حوصلہ مند اور ہمارا پیارا دوست تھا۔ ان دو راتوں میں ہم سب نے بہت باتیں کیں۔ ٹینٹ کی کپڑے کی دیواریں ہمیں سرد ہواؤں اور مسلسل برف باری سے بچانے میں ناکام ہو رہی ہیں اگلے دن علی الصبح ہم الگ الگ ٹیموں کی شکل میں کے ٹو پہاڑ کی طرف بڑھے جب میں اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ سات ہزار میٹر کی بلندی کی طرف بڑھ رہا تھا تو مجھے احساس ہوا کہ میں نے جن آکسیجن اور پانی کی بوتلوں کیلئے ایڈوانس میں ادائیگی کی تھی وہ ہم تک نہیں پہنچ سکیں آکسیجن کے بغیر میں مزید کے ٹو کی بلندی کا سفر کرکے اپنے ساتھیوں کو موت سے ہم کنار نہیں کر سکتا تھا اس لئے ہم نے بجائے اوپر جانے کے واپسی کا سفر اختیار کیا ایسا سفر جہاں لمحے کی غلطی کا مطلب صرف موت ہوتا ہے بغیرآکسیجن بغیر مناسب ڈریس اور کسی بھی غلط رسی کا انتخاب جان لیوا ہوتا ہے‘4فروری کی یہ رات بہت خوفناک تھی میں اس بلندی پر کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ماؤنٹینر مہم جو کا جسم ہوا میں اڑ رہا ہے وہ میرے سر سے کچھ انچ کے فاصلے سے گزر کے گیا اور میرے کچھ ساتھیوں کے سروں کے اوپر سے بھی گزرا میرے خدا یہ ہمارا ساتھی اتناس اسکاٹوو تھا جو میرے سامنے کئی بار قلابازیاں کھاتا ہوا اور اڑتا ہوا پہاڑوں سے ٹکراتا ہوا ہزاروں فٹ گہرائیوں کی طرف جارہا تھا اس نے اپنا اوپری لباس اتار دیا شاید وہ وزن کم کرنا چاہ رہا تھا میں نے انس اسکاٹوو کی تصاویر لیں اور وڈیو بنائی اسکا وہ لباس جو اس نے اتار پھینکا تھا اسکی تصاویر بنائیں اور پھرہمارا ساتھی ہمارا ساتھ چھوڑ گیا ہم سب موت کو سامنے دیکھ رہے تھے میں نے ریڈیو ٹرانسمیٹر آن کیا تو کچھ آوازئیں سنیں جو جان سکوری‘ محمد علی سدپارہ اور جے پی موہر کی تھیں ایک آواز بولی کہ دیکھو یہ کیا کر رہا ہے یہ اپنے آپ کو مارنا چاہتا ہے یہ ہر صورت میں کے ٹو کو سر کرنا چاہتا ہے دوسری آواز تھی کہ میں اپنے پاؤں کو اپنے ساتھ محسوس نہیں کر رہا میرے کپڑے منجمد ہوچکے ہیں تیسری آواز آئی کہ یہاں تو کوئی خیمے بھی نصب نہیں کئے گئے ہیں ایلیابتاتا ہے کہ میں تو خود اپنے جاپانی دوستوں کے ساتھ آکسیجن نہ پہنچنے کی وجہ سے اپنا مشن ختم کرچکا تھا ریڈیو پر محمد علی سدپارہ اور ساتھیوں کی آوازیں سن کر پریشان ہوگیا لیکن میں جانتا تھا کہ محمد علی سدپارہ جان سنوری اور جے پی موہر انتہا درجے کے حوصلہ مند‘بہادر اور تربیت یافتہ کلائمبرہیں وہ اپنی مہم کو کامیاب بنانے کیلئے پوری طرح تیاری کیساتھ اوپر چڑھے ہیں میں نے کمزور بیٹری کی بناء پر ریڈیو بند کر دیا اور اتناس اسکاٹوو کی اس گرل فرینڈ کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہونے لگا جو بیس کیمپ میں موجود ہے اسکو اتناس کے مرنے کی خبر سن کر کیسا لگے گا اتناس میرے کیمپ کے ساتھ والے کیمپ میں موجود تھا اور کئی بار آتے جاتے ہوئے میری اس سے ہیلو ہائے ہوتی تھی ہمیشہ وہ مجھے کہتے ایلیا تم کیسے ہو اف یہ موت کبھی بھلائی نہیں جا سکے گی جس میں کوئی چیخ نہیں تھی کوئی آواز ہی نہیں تھی اور ایک زندہ انسان سرخ کپڑوں میں لپٹا پہاڑوں سے نیچے کی طرف تیزی سے گرتا ہوا جارہا تھا اسی اداسی میں واپس بیس کیمپ پہنچ گیا میں نے دیکھا اتناس کا دوست اور گائیڈ لکپا انتہائی خفا اور اداس اتناس کی وہ ویڈیو بتا رہا تھا جس میں وہ اپنے لباس کے ساتھ کلپ لگارہا تھا لکپا نہایت پیشہ ور گائیڈ تھا لیکن کے ٹو جیسے پہاڑوں پر انہونیاں ہو جاتی ہیں رسی کا ہلکا سا بھی غلط انتخاب آپ کی موت ہوتا ہے اور اتناس اسی غلطی کا شکار ہو چکا تھا یہ ایک حادثہ تھا اور پھر نیچے بیس کیمپ میں بھی سخت اداسی اور موت کا سا سناٹا تھا کیوں کہ محمد علی سدپارہ‘ جان سنوری اور جے پی موہر کی کوئی خبر نہیں تھی میں نے رات11بجے اپنا ریڈیو بند کیا تھا اور اب صبح کے5بج چکے تھے وہی گفتگو میں نے ریڈیو پر اپنے ساتھیوں کی سنی تھی اور اب تک ان کی کوئی آواز کہیں بھی سنائی نہیں دی ہم نے 4فروری کی رات کو ہولناک برفانی رات کے طور پر قبول کرلیا تھا اور ہم جانتے تھے کہ اس برفانی رات کی یخ بستہ طوفانی ہواؤں میں ہم اس قابل نہیں ہیں کہ اپنے ان تین دوستوں کے بارے میں جان سکیں جو اپنی مہم مکمل کرنے کے بالکل قریب تھے ہو سکتا ہے صبح دن نکلنے کے بعد ان کے بارے کچھ معلوم ہو سکے ہم نے واپسی کا سفر صبح10 بجے شروع کیا اور پھر گئے دنوں کے ساتھ کے ٹو پہاڑ کو مہم جوؤں کے لئے بند کر دیا گیا محمد علی سدپارہ اور ہمارے دوسرے دوساتھیوں کا آج تک کوئی پتہ نہیں چلا ہم25لوگ کے ٹو کو فتح کرنے نکلے تھے لیکن موت نے اور کے ٹو پہاڑ نے4ساتھیوں کو واپس آنے نہیں دیا میں اپنے بہادر دوستوں کو کبھی بھلا نہ پاؤں گا۔