دنیائے آفرینش میں عورت کے جنم کے ساتھ ہی اس کے حقوق اور فرائض کے مسائل بھی سامنے آتے گئے اور تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ عورت اور خاص طور پر اسکے حقوق اختلافی موضوعات کے طور پر ابھر کر دنیا والوں کے مباحثوں کا باعث بنے رحمت اللعالمین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت کا عظیم منصب عطا ہونے تک عرب معاشرے میں عورت کی حیثیت ہمیشہ سوالیہ نشان ہی بن کر سامنے آتی رہی وہ صرف ایک جنس تھی جوزندگی میں دوسرے سازوسامان کی طرح ہی سمجھی جاتی تھی اور صنفی معنوں میں اسکا ذکر ہوتا تھا جس طرح گھر کی چیزوں کا تعین قیمتی یا کم قیمتی کے طور پر کیا جاتا ہے غیر مہذب معاشروں میں عورت کا وجود بھی ایسا ہی تھا اسلام کے آنے کے بعد اور تعلیمات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد عورت کے حقوق کا تعین وسیع پیمانے پر مثبت تبدیلی لایا اور عورت کو زندگی کی پستیوں سے نکال کر عروج کی بلندیوں پر پہنچا دیا گیا اور اللہ کے احکامات کے بعد اگر مرد نے عورت کے حقوق ادا کرنے میں رو رعایت کی تو وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کا حقدار ٹھہرا عورت کی حیثیتیں باوقار اور قابل احترام ہوگئیں بیٹی ‘بہن ‘بیوی اور ماں بن کر وہ معاشرے کے کئی اعلیٰ ترین عہدوں میں بٹ گئی وہ عورت جس کو اسلام سے پہلے سازوسامان سمجھا جاتا تھا اب نکاح جیسے خوبصورت بندھن کی محبتوں میں سرشار ہوئی بیٹی بنی تو رحمت بن گئی ‘بیوی بن کر اپنے شوہر کی آنکھ کا تارہ بنی ‘بہن بن کر بھائیوں اور گھر کے افراد کیلئے قابل ذی وقار اور ماں بنی تو جنت کو قدموں کے نیچے رکھ دیاگیا وہ عورت جو بکنے کی جنس تھی اب حق مہر کی حقدار ٹھہری وراثت کی دولت سے نوازی گئی اپنے زندگی کے ساتھی کو اپنی رضا اور خوشی سے اپنانے کا حکم اس کو آزادی کا انوکھا پروانہ عطا کرگیا مرد اور عورت کی برابری کا حکم دے کر اللہ پاک نے اس کو ایک مکمل انسان ہونے کی نوید سنائی جو دنیا کے معاملات میں اور مردکے معاشرے میں ہر طرح زندگی گزارنے کا حق رکھتی ہے وہ حق جو اسلامی شریعت کے عین مطابق ہو عورت تعلیم حاصل کرسکتی ہے عورت قانون بناسکتی ہے عورت تجارت کر سکتی ہے عورت جنگ کے میدان میں مجاہدہ بن کر حصہ لے سکتی ہے عورت کو خلع کا حق دے کر گویا اسلام نے اور اللہ پاک نے عورت کے گلے سے عرب کی روایتی غلامی کاطوق اتار پھینکا بیوہ اور مطلقہ عورت کو عزت و آبرو کیساتھ دوسرا نکاح کرنے کی اجازت دی تاکہ وہ ان بے بس حیثیتوں سے نکل کر زندگی کے آرام و آسائش اور مرد کی کفالت کی چھاﺅں تلے دوبارہ شامل ہو جائے خاوند سے علیحدگی کے بعد بھی بچوں کی پرورش کا پہلا حق عورت کو عطاکرکے اسکی محبت‘ شفقت اور قربانیوں کا اعتراف کیاگیا سورہ النسائ‘ سورہ توبہ اور سورہ اعراف خاص طور پر عورت کو اہم ترین درجے دینے کی آیات سے لبریز ہیں اور ہم سب اس بات کا اعتراف کرینگے کہ جب عورت اسلامی حدود کو پار کرتی ہے تو گویا پھر سے عرب کے اس گھناﺅنے معاشرے میں قدم رکھ دیتی ہے جہاں عورت کی عزت اور حرمت کا کوئی جواز قطعاً نہیں ہوتا تھا ‘آج مغرب کی عورت تو دیار غیر میں بیٹھ کر دیکھتی ہوں تو اسکا اکیلا پن‘ روزگار کیلئے ان تھک محنت‘ رشتے ناطے سے محرومی اور بکھری روح لئے ہوئے اس کو بڑھاپا ایک ایسے گھر کی دہلیز تک پہنچاآتا ہے جسکو یہاں مغرب میں اولڈ ہوم کہتے ہیں اور آخر میں اسکو گمنام قبر میں دفنادیا جاتا ہے مرد جیسے خوبصورت رشتے اس بدنصیب سے بہت دور ہوتے ہیں اسکے برعکس مسلمان عورت کو ہر رشتے میں مرد کی توجہ‘ ہمدردی‘ عزت‘ احترام اور محبت و شفقت حاصل ہوتی ہے جن کا مغرب کی عورت تصور نہیں کرسکتی ماں سے محبت کی انتہا کہ حضرت بایذید بسطامیؒ ساری رات گھر کے دروازے کے باہر بیٹھے رہے کہ دروازہ کھٹکھٹانے سے کہیں میری ماں کو دروازے تک آنے کی تکلیف نہ ہو مسلمان عورت خوش نصیب ہے کہ جس کی کفالت کی کل ذمہ داری مرد کے کندھوں پر ڈال دی گئی اسلامی تاریخ ایسی خواتین کے اذکار سے بھری پڑی ہے جو اپنے وقت کی عظیم سکالرز‘ شاعرات اور اعلیٰ درجے کی لکھاری تھیں امھات المومنین کا علم اور فضل کسی سے پوشیدہ نہیں وہ حدیث اور فقہ کی ماہر تھیں کسی علماءنے ان سے فیض حاصل کیا تھا اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی احکامات اور تعلیمات کے مطابق دنیاوی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ‘آمین‘ اپنی بچیوں کو علم کی دولت سے مالامال کرنا ہم سب کا اولین فرض ہونا چاہئے کہ یہ عین اسلام کے مطابق ہے۔