بھارت، لاؤڈ سپیکر کے ذریعے اذان دینے پر نیا تنازعہ کھڑا کردیا گیا

نئی دہلی:انتہا پسندہندو جماعت بی جے پی حکومت کے تحت بھارت میں لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے پر ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔

 الہ آباد سینٹر ل یونیورسٹی کی وائس چانسلر سنگیتا سریواستوا نے ضلعی انتظامیہ سے اونچی آواز میں اذان پر پابندی عائد کرنے کی درخواست کی ہے۔

 جرمن ٹی وی کے مطابق الہ آباد سینٹرل یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر سنگیتا سریواستوا نے ضلعی انتظامیہ کو تحریری شکایت درج کرائی کہ فجر کی اذان کی وجہ سے ان کی نیند میں خلل پڑتا ہے۔

 کم نیند کی وجہ سے ان کے سر میں درد رہتا ہے اور و ہ اپنا کام ٹھیک سے نہیں کر پاتیں۔ لہٰذا اس مسئلے کا جلد از جلد کوئی حل تلاش کیا جائے۔

بھارت میں اذان کے خلاف شدت پسند ہندو تنظیموں کے علاوہ مختلف حلقوں سے آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔

 الہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر کی جانب سے اذان کے خلاف شکایت اس سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔

پروفیسر سنگیتا سریواستوا نے ضلع مجسٹریٹ کو دی گئی اپنی شکایت میں کہا ہے، میں یہ بات آپ کے علم میں لانا چاہتی ہوں کہ قریبی مسجد سے ہر روز صبح ساڑھے پانچ بجے مائیک پر اذان دینے کی وجہ سے میری نیند خراب ہو جاتی ہے۔

 میری نیند میں اتنا زیادہ خلل پڑتا ہے کہ کوششوں کے باوجود  میں دوبارہ سونہیں پاتی اور اس کے نتیجے میں دن بھر میرے سر میں درد رہتا ہے اور میں کام نہیں کر پاتی ہوں۔

الہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر نے اپنی شکایت میں مزید لکھا، میں کسی مذہب، ذات یا نسل کے خلاف نہیں ہوں۔ لیکن وہ مائیک کے بغیر بھی اذان دے سکتے ہیں تاکہ دوسروں کو پریشانی نہ ہو۔ رمضان کے دنوں میں مائیک پر سحری کا اعلان صبح چار بجے شروع ہو جاتا ہے، جس سے دوسروں کو بھی پریشانی ہوتی ہے۔ 

بھارتی آئین نے تمام فرقوں کو پر امن بقائے باہمی کی ضمانت دی ہے، جسے عملی طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ ضلعی حکام نے اذان کے متعلق شکایت موصول ہونے کی تصدیق کی ہے۔

الہ آباد یونیورسٹی کے قریب واقع تاریخی لال مسجد کی انتظامی کمیٹی نے از خود فیصلہ کرتے ہوئے گوکہ لاؤڈ سپیکر کی آواز کم کر دی ہے  اور اس کی سمت بھی وائس چانسلر کی رہائش گاہ کی جانب سے موڑ کر دوسری طرف کردی ہے تاہم اب یہ معاملہ سیاسی رنگ اختیار کرنے لگا ہے۔مختلف سیاسی تنظیموں نے اذان پر پابندی کے خلاف شہر میں مظاہرے کیے۔

 اپوزیشن کانگریس سے وابستہ طلبہ تنظیم این ایس یو آئی نے وائس چانسلر کا پتلا جلایا اور کہا کہ یہ مذہبی منافرت کو ہوا دینے کی بی جے پی کی چال ہے۔

 اس تنظیم نے اذان پر پابندی کے مطالبے کی مذمت کی اور سوال کیا کہ صرف اذان سے ہی شہریوں کی نیند میں خلل کیوں پڑتا ہے۔

 بھجن، کیرتن، آرتی اور کتھا کے دوران ہونے والے شوروغل سے انہیں پریشانی کیوں نہیں ہوتی۔

بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن اور معروف دینی درسگاہ لکھن کے فرنگی محل کے سربراہ مولانا خالد رشید فرنگی محلی کہتے ہیں، اذان سے متعلق الہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر کے خط کی ہم مخالفت کرتے ہیں۔

 انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بھارت گنگا جمنی تہذیب کے لیے مشہور ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مسجدوں سے اذانیں اور مندروں سے بھجن کیرتن فضا میں گونجتے رہتے ہیں۔ ان کی وجہ سے کسی کی نیند میں خلل نہیں پڑتا۔ لہذا اس طرح کے غیر ضروری معاملے کو اٹھا کر لوگوں کو گمراہ نہ کیا جائے۔

سن 2017 میں بالی وڈ کے گلوکار سونو نگم نے بھی اذان کے حوالے سے ایک متنازعہ ٹوئٹ کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا میں مسلمان نہیں ہوں لیکن مجھے فجر کی اذان کی وجہ سے نیند سے جاگ جانا پڑتا ہے۔ آخر بھارت میں مذہبی زبردستی کا سلسلہ کب ختم ہوگا۔

سونو نگم کے اس ٹوئٹ پر کافی ہنگامہ ہوا تھا۔ بالی وڈ کی مختلف شخصیات نے ان کے بیان کی مذمت کی تھی، جب کہ ایک حلقہ ان کے حق میں کھڑا ہوگیا تھا۔

نغمہ نگار جاوید اختر نے گزشتہ برس کہا تھا کہ اذان پر کسی کو اعتراض نہیں ہے لیکن لاؤڈ سپیکر کی وجہ سے کسی کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔

 ان کا کہنا تھا کہ کسی تہوار کے موقع پر اگر لاؤ ڈ اسپیکر کا استعمال کر لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن ہر روز مندروں اورمساجد میں اسے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔