سڈنی: اب تک کی سب سے بڑی سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ موبائل کمیونی کیشن کی جدید ٹیکنالوجی ’’فائیو جی‘‘ انسانی صحت کےلیے بالکل محفوظ ہے۔
اس سلسلے میں دو الگ الگ جائزے لیے گئے جن میں 6 گیگاہرٹز یا اس سے زیادہ فریکوئنسی والی ریڈیو لہروں (ملی میٹر ویوز) کی کم مقدار سے انسانی صحت کےلیے ممکنہ خطرات کے حوالے سے 138 سابقہ مطالعات اور 100 سے زائد تجربات کا نئے سرے سے تجزیہ کیا گیا۔
جائزے کا کام ’’آسٹریلین ریڈی ایشن پروٹیکشن اینڈ نیوکلیئر سیفٹی ایجنسی‘‘ (ARPANSA) اور سوئنبرن یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں ماہرین کی ٹیموں نے مشترکہ طور پر انجام دیا۔
واضح رہے کہ فائیو جی (5G) ٹیکنالوجی کو موبائل کمیونی کیشن کی ’’اگلی نسل‘‘ بھی کہا جاتا ہے جس میں 28 گیگاہرٹز سے 39 گیگاہرٹز فریکوئنسی تک کی ریڈیو لہریں استعمال کی جاتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ مطالعہ اب تک فائیو جی ٹیکنالوجی اور انسانی صحت میں تعلق کے حوالے سے کیا گیا سب سے بڑا مطالعہ ہے لیکن اس ضمن میں تحقیق کا سلسلہ جاری رہے گا۔
6 گیگا ہرٹز یا اس سے زیادہ فریکوئنسی والی ریڈیو لہروں کے خلوی تقسیم، خلیوں میں جینیاتی تبدیلیوں، خلیوں کے مابین پیغامات کے تبادلے اور خلوی جھلی کی کارکردگی پر پڑنے والے اثرات کے علاوہ ایسے ہی دوسرے کئی پہلوؤں پر کی گئی سائنسی تحقیقات کا محتاط تجزیہ کرنے کے بعد ماہرین کو ’’ایسی کوئی مصدقہ شہادت نہیں ملی جو یہ ثابت کرتی ہو کہ فائیو جی نیٹ ورک میں استعمال ہونے والی ریڈیو لہریں انسانی صحت کےلیے خطرناک ہیں۔‘‘
ان میں سے چند سائنسی تحقیقات ایسی ضرور تھیں جن میں فائیو جی فریکوئنسی کے انسانی صحت کےلیے نقصان دہ ہونے کے دعوے کیے گئے تھے لیکن اوّل تو ان میں کئی طرح کی خامیاں تھیں اور دوسرے یہ کہ ان میں حاصل شدہ نتائج کی کسی بھی دوسرے معتبر ذریعے سے تصدیق نہیں ہوئی۔
یہ مطالعات ’’جرنل آف ایکسپوژر سائنس اینڈ اینوائرونمنٹل ایپی ڈیمیولوجی‘‘ کے تازہ شمارہ جات میں دو الگ الگ مقالہ جات (نمبر 1، نمبر 2) کے طور پر شائع ہوچکے ہیں۔