ڈاکخانوں کے ذریعے پنشن۔۔۔

 معذور پنشنروں کا قصور یہ ہے کہ عمر رسیدہ ‘ بوڑھے ‘ معذور اور بیما ر ہونے کے باوجود وہ زند ہ کیوں ہیں ؟ پنشن کیوں لیتے ہیں؟ نیا حکم آیا ہے کہ کوئی پنشنر اپنے گھر کے قریب ڈاک خا نے سے پنشن نہیں لے سکتا پنشن لینے کےلئے بینک میں اکاﺅنٹ کھو لنا لا زمی ہو گا‘ عین ممکن ہے کہ یہ اقدام بہت سے افراد کے لئے سہولت کا باعث ہو تاہم معذوروں کے لئے یقینا ان تمام مراحل سے گزرنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ پنشن لینے والوں میں 102سال کی عمر کے لوگ بھی ہیں 60سال کی عمر کے بعد انگلیوں کے نشا نات مٹ جا تے ہیں 50فیصد لو گ با ئیو میٹرک نہیں کرسکتے 102سال کے بوڑھے کو اُس کے پوتے بینک میں لا تے ہیں سارا دن مشین کے سامنے بٹھا تے ہیں تقا ضائے بشری کے تحت وہ بار بار واش روم جا تا ہے دن کے اختتام پر بینک حکام کہتے ہیں کہ شنا ختی کارڈ کو تبدیل کراﺅ اگلے چا ر دنوں میں وہ صبح سے شام تک شنا ختی کارڈ کی تبدیلی کےلئے خوار ہو تا ہے ایک ما ہ بعد نیا شنا ختی لیکر بینک جا تا ہے تو پھر بائیو میٹرک نہیں ہوتا وطن عزیز کے 8 لاکھ پنشنروں کا مسئلہ ہے یہ وہ لوگ ہیں جو دیہات میں رہتے ہیں اور اب تک قریبی ڈاک خا نے سے پنشن لیتے تھے ہمارے دیہا تی علا قوں میں ڈاک خا نہ حکومت پا کستان کی ایسی سہو لت ہے جو سب کو میسر ہے آسا نی سے میسر ہے اور خدمت گذاری کےلئے ہر دم تیار ہے ۔ڈاک خا نے کا سیونگ بینک ، ڈاک خا نے کا پو سٹل انشو رنس اور ڈاک خا نے سے پنشن لینے کی سہو لت غریبوں کےلئے کسی بڑی نعمت سے کم نہیں ۔ ڈاک خا نہ پنشنر کے گھر سے چار کلو میٹر کے فا صلے پر ہے جبکہ بینک تک جانے کےلئے اس کو 200کلو میٹر سفر کرنا پڑتا ہے پہاڑی علا قوں میں 200 کلو میٹر کا سفر 12 گھنٹے لیتا ہے بلو چستان ، وزیرستان ‘ہزارہ اور ملاکنڈ کے پہا ڑی علا قوں میں بعض گاﺅں ایسے بھی ہیں جہاں سے قریبی بینک کا کم سے کم فاصلہ 320کلو میٹر ہے ایسے پہاڑی دیہات میں رہنے والے پنشنروں کےلئے گاﺅں کے ڈاک خانے سے پنشن لینا آسان تھا ان کے لئے بینک جا کر اکاﺅنٹ کھو لنا اور بائیومیٹرک کے اذیت ناک عمل سے گذر کر پنشن لینا ایک عذاب سے کم نہیں ، آپ کسی بھی بینک جا ئیں وہاں ہزاروں پنشنر آپ کو ملیںگے ان میں محکمہ تعلیم ، محکمہ صحت اور دیگر محکموں کے پنشنر بھی ہو نگے ضلع چترا ل اَپر ملا کنڈ ڈویژن کا ضلع ہے اس ضلع کے ایک بینک میں ایک ہی روز جن پنشنروں کومشکل کا شکار ہوتے دیکھا ان میں سے دو پنشنر وں کی مثال کافی ہو گی ایک پنشنرکی بینا ئی چلی گئی ہے آنکھوں سے معذور ہو چکے ہیں ایک ٹانگ سے بھی معذور ہیں بیٹا ان کو لیکر 62کلو میٹر دو ر سے آیا ہے گذشتہ 5دنوں سے ہو ٹل میں رہتا ہے روز بینک آکر بائیو میٹرک کے مرحلے سے گذر تا ہے دوسرا پنشنر 110کلو میٹر دور سے آیا ہے اور گذشتہ ایک مہینے میں یہ اُس کا تیسرا سفر ہے اس کے باوجود ان کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اگر بائیو میٹرک کے تمام مراحل بخوبی طے نہ پائے اور اس میں کوئی نقص رہ گیا تو وہ ڈرتا ہے کہ اس کی پنشن ہی بند ہو جائیگی معذور پنشنروں کا قصور یہ ہے کہ وہ اتنے بوڑھے اور معذور ہونے کے باوجود زندہ کیوں ہیں ؟ اس طرح کی اذیتوں سے گذر نے والے لو گ حکومت کو الزام دیتے ہیں وزیر اعظم اور کابینہ کو الزام دیتے ہیں ‘ حکومت سے در خواست ہے کہ ڈاک خا نوں کے ذریعے پنشن کی تقسیم کا طریقہ بحا ل کر کے قوم کے بزرگ شہریوں کا مسئلہ حل کریں ۔یہ وہ لو گ ہیں جنہوں نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں قوم کی خد مت کی ہے اپنی جوا نی قوم کو دی ہے ‘وزیر اعظم عمران خا ن کی ایک ٹو یٹ سے ڈاک خا نوں کے ذریعے پنشن کی ادائیگی کا طریقہ بحا ل ہو سکتا ہے اور لاکھوں پنشنر وں کو بینکوں کے چکر اور با ئیو میٹرک کی غیر معمو لی اذیت سے نجا ت مل سکتی ہیں ۔ اب یہ ارباب اختیار کا کام ہے کہ وہ کس طرح سے ایسا لائحہ عمل اختیار کرے کہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تمام مراحل کو کمپیوٹر ائزڈ بھی کرے اور اس کے ساتھ ساتھ بزرگ شہریوں اور معذوروں کےلئے سہولت اور آسانی کو بھی مدنظر رکھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو مشکل سے مشکل مسائل کا حل آسانی سے نکل آتا ہے‘ اور پھر خصوصی افراد یعنی معذوروں کا تو معاشرے پر حق ہے کہ ہر کوئی ان کو سہولت و آسانی فراہم کرے۔