میں اب کبھی واپس نہیں آؤنگی 

 70ء کی دہائی میں 20سال کی عمر تک پہنچنے والی لڑکیاں اتنی باشعور نہ تھیں کہ وہ اپنے ملک و قوم کے دفاع کیلئے تحریک کی صورت بن جائیں لیکن میناکشور کمال صرف20سال کی عمر میں ایسی پرجوش‘ انقلابی اور وطن کی محبتوں کے جذبوں سے مالامال تھی کہ جب روس نے افغانستان پر اچانک حملہ کرکے اس پر قبضہ کرنا چاہا تو پورا افغانستان آگ بگولہ ہوگیا اور خصوصاً افغانستان کی نئی نسل نے روس جیسی سپرپاور کو سبق سکھانے کیلئے ایسے ایسے کام کئے کہ آج افغانستان کی جنگ کی50-45 سال ہونے کو آئے ہیں آج کے دن تک بھی ان کے حوصلے اور جذبے اپنے وطن افغانستان کیلئے سرد نہیں ہوئے یہ الگ بات ہے کہ روس کو افغانستان سے نکالنے کیلئے امریکہ جنگ میں اس طرح چھلانگ لگا کر اس خطے میں آیا کہ روس بہت جلد اپنی فوج اور اسلحے کا نقصان کرکے یہاں سے نکل گیا لیکن افغانستان کی پہاڑی دلدل میں امریکہ اور پھرNATO افواج ایسی گھر گئیں کہ آج بھی اک ایسادوراہا ان کے سامنے ہے کہ نہ آگے جا سکتی ہیں نہ پیچھے مڑ سکتی ہیں شکست دونوں طرح ہی ان افواج کے نصیب میں لکھی جا چکی ہے اور یہ ایک ایسی جنگ تھی اور اب بھی جاری ہے جس میں ساری دنیا کی افواج جھونک دی گئیں افغانستان کے ہمسایوں نے بھی جان اور مال کی قربانیاں دیں اور افغانستان کی نئی نسلیں تو اس طرح بکھر گئیں کہ اس وقت کا ترقی یافتہ افغانستان اب مختلف صورتحال سے دوچار ہے میناکشور کمال بھی20سال کی نوجوان اور پرجوش طالبہ تھی جب روس کے حملے کے خلاف وہ باہر نکل آئی اور اس نے افغانستان کی نوجوان خواتین کیلئے ایک تنظیم بنائی جسکا نام تھا ریولوشنری ایسوسی ایشن آف دی افغان ویمن اور اتنی کم عمری میں ہی اس نے ایک میگزین بھی نکالا جس کا نام تھا پیام زن میناکشور کمال سارا دن ان جلوسوں کی قیادت کرتی جو روس کے خلاف سراپا احتجاج بن کر اسکو نکالے جانے کے عزم کے ساتھ نکالے جاتے تھے اور سکول کالج اور کابل یونیورسٹی میں روس کے ناجائز قبضے کے خلاف تحریک بن کر اپنی آواز کو یکجا کرتی تھی جب بڑے پیمانے پر افغانستان کے لوگوں نے ہجرت کی اور وہ پاکستان‘ ترکی اور ایران کی طرف جانا شروع ہوئے تو مینا کشورکمال کوئٹہ آگئی اور وطن سکول کے نام سے اپنے افغان بچوں بچیوں کو تعلیم دینے کا کام شروع کیا  ہسپتال بنائے اور بے شماردستکاری سکولوں کی بنیاد حکومت پاکستان کے تعاون سے رکھی اس کم عمر لڑکی کی اس پرجوش تحریک کا مقصد افغان خواتین کو اس مشکل وقت میں سہارا دینا تھا میناکشورکمال نے اپنی کم عمری کواپنے ملک و قوم کی محبت کیلئے آگ کی بھٹی میں جھونک دیا جب کہ اسکی عمر کے کئی لوگ اپنے خاندانوں کے ساتھ بیرون ملک آباد ہوئے اور اچھے مستقبل کی تلاش شروع کی لیکن میناکشور کمال کی جدوجہد عام افغانی عورت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا تھا افسوس وہ صرف12سال تک ہی یہ جدوجہد جاری رکھ سکی اور اک گولی کا نشانہ بن کرتاریخ کی صفحات میں ہمیشہ کیلئے زندہ رہنے کیلئے کھو گئی‘ حیرت ہے اس نے اپنی زندگی میں ہی ایک طویل نظم لکھی تھی جسکا عنوان تھا میں کبھی واپس نہیں آؤنگی میں اپنے وطن کے  جلے ہوئے بچوں کی راکھ سے طوفان بن جاؤنگی میرے وطن کی تباہی نے مجھے مضبوط کردیا ہے میں اپنے بھائی کے خون سے نکلنے والا ایسا چشمہ ہوں جو ابل کر باہر آگیا ہے میں وہ عورت ہوں جو جاگ گئی ہے میرے وطن کا غصہ مجھے طاقتور بنا دے گا میرے تباہ حال اور جلے ہوئے گاؤں نے مجھے دشمن کے خلاف نفرت سے بھر دیا ہے میں وہ عورت ہوں جو جاگ گئی ہے میں وہ عورت ہوں جس سے اپنا رستہ چن لیا ہے وہ کبھی واپس نہیں پلٹے گی میں نے پوشیدہ بند دروازوں کو کھول دیا ہے میں نے سنہری سونے کی چوڑیوں کو خدا حافظ کہہ دیا ہے اے میرے ہم وطن میں اب وہ نہیں رہی جو پہلے تھی میں وہ عورت ہوں جو جاگ گئی ہے میں اپنا رستہ جان گئی ہوں اب کبھی واپس نہیں آؤنگی میں اپنے ننگے پاؤں‘ برباد اور بے گھر بچوں کو دیکھتی ہوں اور مہندی لگے ہوئے جوان اور خوبصورت ہاتھوں کو ماتمی لباس پہنے ہوئے دیکھتی ہوں میں جیل کی اونچی دیواروں کو دیکھتی ہوں جنہوں نے ہماری آزادی کو کھالیا ہے میں نے اپنے حوصلے کے ساتھ اک نیا جنم لیا ہے میں نے آزادی کا نغمہ فتح اور خون کی آخری ہچکی سے سن لیا ہے اے میرے دیس کے رہنے والے‘ میرے بھائی میں اب کمزور اور بے صلاحیت نہیں ہوں میں اپنے تمام حوصلے اور مضبوطی کے ساتھ اپنے وطن کی آزادی کیلئے تمہارے ساتھ کھڑی ہوں میری آواز ہزاروں جاگ جانے والی عورتوں میں شامل ہو گئی ہے میرا مکا بھی میرے ہم وطن کیساتھ طاقت بن کر شامل ہوچکا ہے تمہارے ساتھ ہی میں اپنے قدموں کو اپنے پیارے وطن کیلئے آگے بڑھاؤنگی تاکہ دکھوں کی رنجیریں کھل جائیں اور غلامی کی بیڑیاں کھل جائیں او میرے بھائی میں اب وہ نہیں ہوں جو کبھی تھی میں وہ عورت ہوں جو جاگ گئی ہے میں نے اپنا رستہ دیکھ لیا ہے اور کبھی اس سے پیچھے نہیں ہٹوں گی اور مینا کمال صرف31سال کی عمر میں مرگئی اپنے وطن افغانستان سے شدید محبت کرنے والی نوجوان جوشیلی لڑکی نے اپنی لافانی نظم میں کہہ دیا کہ میں اب واپس نہیں آؤنگی آج اسکو دنیا سے گئے ہوئے بھی برسوں بیت گئے ہیں افغانستان پر اب بھی مہیب سائے منڈلا رہے ہیں میناکشور کمال کے مرنے کے بعد اسکی بنائی ہوئی آرگنائزیشن اپنا کام کرتی رہی اور آج تک کر رہی ہے اور مینا کمال کی طرح اور اس کے مقصد کی طرح اسکی آرگنائزیشن یہ یقین رکھتی ہے کہ آزادی‘ جمہوریت خیرات میں نہیں ملتی‘ افغانستان سے تعلق رکھنے والے لاکھوں نوجوان  لڑکے اور لڑکیاں اپنے وطن کو اک بار پھر ترقی یافتہ ملک بنانے کے خواب کے ساتھ جی رہے ہیں۔