رمضان المبارک سے پہلے مہنگائی۔۔۔۔

وطن عزیز کے عوام گزشتہ کئی برسوں سے گرانی کے عذاب کو بھگت رہے ہیں،افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وقت گزرنے کےساتھ مہنگائی میں مزید شدّت آتی چلی جا رہی ہے۔ویسے تو ہر ماہ ہی گرانی میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ابھی رمضان کی آمد ،آمد ہے کہ ہر شے کی قیمتوں کو پر لگنے شروع ہوگئے ہیںاور رمضان المبارک کی آمد سے قبل ملک کے اندرمہنگائی میں طوفانی اضافے نے پوری قوم کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔دوسری جانب چینی کی قیمت کنٹرول سے باہر ہوگئی ہے،10بڑے شہروں میں قیمت 100روپے فی کلو یا اس سے زائد ہو گئی ہے، ۔ مقامی مارکیٹس میں کچھ اصلی اور کچھ مصنوعی مہنگائی کےساتھ ساتھ آئی ایم ایف سے معاہدوں پر عمل درآمد کی صورت جو مہنگائی کا خوفناک ریلا آنےوالا ہے وہ الگ ہے ۔38 شعبوں کےلئے ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے کافیصلہ کر لیا گیا ہے، اس سلسلے میں ایک مسودہ قانون بھی قومی اسمبلی میں جمع کروا دیا گیا ہے۔اس منی بجٹ کے بعد ٹیکس تو شاید کچھ حد تک جمع ہو جائے لیکن بے روزگاری اور مہنگائی کا ایسا ریلا آئےگا،جس کی مثال نہیں ملتی۔ہم بار بار اس خطرے کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اگر حکومت نے مہنگائی کو نہ روکاتو ستائے ہوئے عوام سڑکوں پر نکل کر سیاسی عدم استحکام کا سبب بن سکتے ہیں۔ حکومت کو رمضان سے پہلے مہنگائی کا نوٹس لینا چاہئے اور ابھی سے کوئی سد باب کرنا چاہئے۔ عوام مزید مہنگائی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔جبکہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دُنیا بھر میں خصوصی دنوں اور تہواروں کے موقع پر اشیاے ضرور یہ کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہے جب کہ وطن عزیز میں اُلٹی گنگا بہتی ہے اور ہر شے کے دام بڑھ جاتے ہیں،ہر سال ہی رمضان المبارک میں گرانی اپنے عروج پر پہنچی ہوتی ہے۔دودھ ،آٹا،گھی،تیل ،سبزیاں وغیرہ سب مہنگے ہو جاتے ہیںاور پھل تو غریبوں کےلئے شجر ممنوعہ اس لیے ہو جاتے ہیں کہ وہ اُن کی اتنی زائد قیمت پر خریداری کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ آخر کیوں پرانے مجسٹریسی نظام سے استفادہ نہیں کیاجاتا، جس سے بازار اور منڈی ہر جگہ پر قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی تھی۔یاد رہے ملک کی آبادی 22کروڑ ہے اور ملک بھر میں یوٹیلٹی سٹورزکی کل تعداد 5491 ہے۔اب ذرا تصور کریں کس طرح ملک کے کروڑوں لوگوں کو سبسڈی سے فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر نا جائز منافع خوروں کےخلاف کاروائی کرنے کےلئے اقدامات کا اعلان کریںاور منافع خور تاجروں پر جرمانہ عائد کرنے کی بجائے سخت ترین سزاﺅں کے اقدامات کیے جائیں۔پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی کارکردگی بھی کچھ خاص نہیں۔اسلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ضلعی حکومت کے نمائندوں کو صحیح معنوں میں عوام کا خادم بنایا جائے اور ان سے مہنگائی کے خاتمے کےلئے مرکزی کردار اداکروایا جائے۔ضروری ہے کہ سرکاری نرخناموں پر عمل داری یقینی بنائی جائے، کیوں کہ اسکے بغیر اب چارہ بھی نہیں۔ ملک بھر میں مہنگائی کے عفریت پر قابو پانے کےلئے نہ صرف راست اقدامات کیے جائیں بلکہ رمضان المبارک میں عوام کو گرانی کے عذاب سے بچانے کو مو¿ثر بندوبست بھی کیا جائے۔تمام بازاروں کا ذمے داران دورہ کریں اور وہاں سرکاری نرخ نامے کے مطابق اشیاءضروریہ کی فروخت ممکن بنائیں،گراں فروشوں کے خلاف کڑی کاروائیاں کی جائیں۔ صرف اسی صورت میں کم ازکم رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بے لگا م قیمتوں کو قابل میں رکھا جا سکے گا ورنہ ذخیرہ اندوزوں اور گرانفروشوںنے تو چھریاں تیز کر رکھی ہیں ۔