پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ذہنی معذوری کے مرض آٹزیم سے آگاہی کا دن منایا جارہا ہے۔
اس دن کو منائے جانے کا مقصد عالمی سطح پر عوام کو بچوں کی ذہنی نشوونما کے بارے میں بیماری کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ہے۔
آٹزم ایک ایسی بیماری ہے جس میں بچوں کی ذہنی نشوونما کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور یہ متاثرہ شخص کی زندگی کا عمر بھرپیچھا کرتی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا لوگ خیالی دنیا میں رہتے ہیں، بول چال میں دقت محسوس کرتے ہیں اوراپنے خیالات کو بیان نہیں کر سکتے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک صحت مند بچہ تین برس کی عمر کے بعد اپنے ماں باپ سمیت قریبی لوگوں سے سماجی بندھن باندھنے کا اہل ہوجاتاہے لیکن آٹزم میں مبتلا بچہ ایسا کرنے میں ناکام رہتاہے۔ وہ اپنی خیالی دنیا میں گم ہو کے رہ جاتاہے اوراسے بیرونی دنیا سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
آٹزم کی دیگر علامات میں بول چال میں دشواری، بے ربط الفاظ میں مدعا بیان کرنا، لوگوں سے نظریں چارکرنے سے گریز، کچھ آلات یا اشیا مثلاً بجلی کے سوئچ، پنکھے اور گھومنے والے پرزے یا کھلونوں کے ساتھ غیر معمولی لگاؤ، کسی کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش نہ کرنا، کسی سنی ہوئی بات یا جملے کو بغیر کسی وجہ کے دہراتے رہنا اور گرمی اور سردی کے احساس سے عاری ہونا شامل ہیں۔
آٹزم میں مبتلا فرد اپنی دنیا میںگم رہتا ہے۔ اسے اپنی توجہ مرکوز کرنے میں دشوار ی ہوتی ہے اور اس کی حرکات و سکنات میں ہم آہنگی نہیں ہوتی۔ ان علامات کا مشاہدہ کرتے ہوئے خود ہی یہ یقین مت کر لیجیے کہ بچے کو آٹزم ہی ہے۔ آٹزم کی تشخیص پیچیدہ ہے اور صرف ظاہری علامات کی بنیاد پر کسی کو آٹسٹک نہیں کہا جا سکتا۔ اگر آپ کوشک گزرے کہ کسی بچے کو آٹزم ہے توڈاکٹر سے رابطہ کیجیے اور مسئلہ بیان کیجیے ۔
آٹزم میں مبتلا افراد اردگرد کی دنیا کا ادراک مختلف انداز سے کرتے ہیں اور ان کا دوسرے سے تعلق اور رابطہ آٹزم کی وجہ سے متاثر ہوتاہے۔یہ افراد دنیا کو مختلف انداز سے دیکھتے، سنتے اور محسوس کرتے ہیں۔
آٹزم روایتی معنوں میں کوئی بیماری نہیں اور نہ ہی اس کا ’’علاج‘‘ موجود ہے۔ تاہم ماہر نفسیات ، اساتذہ ، والدین اور دوسرے رشتے دار متاثرہ بچے کی مدد کرسکتے ہیں اور اس کی طرف مخصوص توجہ دے کر اسے سماجی زندگی کے دائرے کے اندر لانے میں اپنا کردار نبھا سکتے ہیں۔