آج کے دن05اپریل1913 کو پشاور میں اسلامیہ کالجیٹ سکول کے نام سے ایک اہم درسگاہ کا قیام عمل میں آیا جو کہ آج اب یونیورسٹی بن چکی ہے۔ اسلامیہ کالج یونیورسٹی جوکہ درہ خیبر کے دھانے پر واقعہ ایشیا کی مشہور قدیمی درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس قدیمی درسگاہ نے 2013 میں 100سال مکمل کر لئے تھے۔اس طرح سے اس درسگاہ کو ایشیا کی 100سالہ تاریخ کے حامل یونیورسٹی کا درجہ مل گیا ہے جو کہ خیبر پختونخوا اور خصوصا پشاور اور اہل پشاورکیلئے قابل فخر بات ہے۔اہل پشاور کو ایک اور اعزاز حاصل ہوگیا ہے اور وہ اعزاز یہ ہے کہ پشاور شہر دنیا کے ان گنے چنے ملکوں و شہروں میں شامل ہوگیا ہے جن کی تعلیمی درسگاہیں ایک صدی یا اس سے زیادہ عرصہ سے قائم کی گئیں ہیںاسلامیہ کالج کے قیام کو عملی جامہ اکتوبر 1913 میں سر صاحبزادہ عبدالقیوم خان نے پہنایا وہ ایک اعلی پائے کے معالج و ماہر تعلیم تھے انہیں پختونوں اور قبائلی علاقہ جات کے لوگوں کی تعلیم کی کمی کا شدت سے احساس تھا اسی احساس نے ایک اعلی تعلیمی ادارے کی خواہش کو جنم دیا ۔ جہاں مذہبی اور سائنسی تعلیمات کا حصول ایک چھت تلے ممکن ہوا۔ اپریل 1911 میں اسلامیہ کالج کے قیام کیلئے عملی کام کا آغاز ہوا جس کیلئے اس وقت ایک نگران کمیٹی تشکیل دی گئی۔ سر صاحبزادہ عبدالقیوم خان کو کمیٹی کا اعزاز ی سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ کمیٹی نے چندہ اکٹھا کر نے کی مہم شروع کی، علی گڑھ یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلبا نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا ۔ 12اپریل 1911 کو چندہ اکٹھا کرنے کے حوالے سے ایک تقریب عبدالکریم خان اندرابی کی رہائش گاہ پر منعقد کی گئی جس میں عبدالکریم خان اندرابی نے دس ہزار روپے کی خطیر رقم دی جبکہ سر صاحبزادہ عبدالقیوم خان نے ایک ہزار روپے کا حصہ ڈالا اور اسی طرح دیگر لوگوں نے بھی اپنی حیثیت کے مطابق چندہ دیاجن میں کریم بخش سیٹھی، خوشحال خان اور غلام حیدر خان الکوزئی کے نام شامل ہیں۔ چھ ماہ کے قلیل عرصہ میں پانچ لاکھ روپے جمع ہوگئے جبکہ 1914 میں یہ رقم بڑھ کر پندرہ لاکھ روپے ہوگئی۔ کالج کی عمارت کی تعمیر کے حوالے سے مناسب اراضی کیلئے سرصاحبزادہ عبدالقیوم خان اور دیگر اشخاص نے کافی کوششیں کیں اور تین مجوزہ جگہوں پر کالج کو نامنظور کیا گیا جن میں داﺅدزئی روڈ، کوہاٹ روڈ، رجڑ بازار شامل ہیں۔ان جگہوں کی نامنظوری کے بعد موجودہ اراضی کو اسلامیہ کالج کیلئے منتخب کیا گیا۔ابتدائی نقشے کے مطابق دارا لعلوم میں ایک ہائی سکول، جدید سائنسی فنون لطیفہ کی تعلیم کیلئے ایک کالج، مذہبی تعلیم کیلئے ایک مسجد کا قیام تھا۔سکول کے طلبہ کی رہائش کیلئے ہارڈنگ اور بٹلر ہاسٹل جبکہ کالج کے طلبہ کیلئے عبدالقیوم منزل اور اورینٹل ہاسٹلز بنائے جانے تھے۔دارالعلوم اورمسجدکی بنیاد ممتاز مجاہد حاجی صاحب ترنگزئی نے رکھی جبکہ آرٹس اور سائنس کے شعبہ جات کی بنیاد اسی روز چیف کمشنر پشاور سرجارج روز کیپل نے رکھی تھی اور افتتاحی تقریب میں 25سے 30ہزار افراد نے شرکت کی تھی۔اسلامیہ کالج کے تعلیمی سفر کا آغازاپریل 1913 میں اسلامیہ کالجیٹ سکول سے ہوا۔ سکول کا افتتاح اس وقت کی تعلیمی کمیٹی کے رکن سپنسر ہارکوٹ بٹلر نے کیا۔ جبکہ چھ ماہ گزرنے کے بعد یکم اکتوبر 1913 کو اسلامیہ کالج نے اپنے محدود علمی سفر کا آغاز کیا۔ اپنے نایاب طرز تعمیر کی طرح کالج کا نصاب بھی نایاب تھا۔خوبصورت طرز تعمیر کے ساتھ ساتھ تعلیمی معیار نے ادارے کو چار چاند لگا دئیے۔ کالج نے سائنسی، اخلاقی اور اسلامی علوم کو ایک جگہ اکٹھا کیا کالج صرف اور صرف ربی زدنی علماکے مقصد کیلئے قائم کیا گیا تھا۔اکتوبر 1913 میں جب کالج شروع ہوا تو طلبا کی تعداد صرف 33تھی لیکن آج تقریبا108 سال بعد کالج اب یونیورسٹی بن چکی ہے ہر سال اس ادارے میں پانچ ہزار سے زائد طلبا اور طالبات علم کی روشنی سے منور ہو رہے ہیں۔ اس تعلیمی ادارے سے اب تک 60ہزار سے زائد لوگ عملی میدان میں نکل کر ملک و قوم کا نام روشن کر رہے ہیں۔