1921ءمیں وہ صرف 39 سال کا تھا جب اس نے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا تھا۔ وہ ایک نوجوان وکیل تھا اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کینیڈا کے ایک جزیرے پر چھٹیاں گزارنے گیا تھا۔ اس کا نام فرینکلین ڈی روز ویلیٹ تھا۔ اس جزیرے پر اس کو بخار ہوگیا اور اس کو محسوس ہوا کہ اس کے بازو، پاﺅں، ٹانگیں روز بہ روز کمزور اور کمزور ہی ہوتی جا رہی ہیں۔ ڈاکٹروں نے فوری طورپر ہی تو فالج کا حملہ سمجھا کیوں کہ منہ پر بھی اس کا حملہ ہوا تھا اور پھر علاج شروع ہوا اور نیویارک کے ڈاکٹروں سے بھی کنسلٹ کیاگیا کیوں کہ وہ خود نیویارک کا رہنے والا تھا لیکن زندگی ہی ہاتھ سے نکلتی جاری تھی۔ اس کے چچا نے ٹرین اور بوٹ کے ذریعے اس کو جلد از جلد نیویارک پہنچانے کے انتظامات کئے اگرچہ فالج کے مریض کیلئے یہ لمبا سفر انتہائی مشکل تھا لیکن بالآخر وہ نیویارک کے ایک بہترین ہسپتال تک پہنچ گیا۔ جہاں مختلف معائنوں سے پتہ چلا کہ فرینکلن ڈی روز ویلیٹ کو پولیو ہوگیا ہے جس سے وہ مدتوں بعد چہرہ اور بازو ہلانے کے قابل ہوگیا لیکن جسم کا نچلا دھڑ ہمیشہ کیلئے مفلوج ہوگیا۔1921 میں پولیو ویکسین ابھی دریافت نہیں ہوئی تھی ا ور وہ پھر وہ ا پنے آدھے جسم کے ساتھ 1945 تک زندہ ر ہا لیکن یہ باہمت شخص دو دفعہ نیویارک کاگورنر بنا اور چار دفعہ امریکہ کا صدر۔۔ ایسے باہمت انسانوں کی مثالیں تو تاریخ میں بھری پڑی ہیں لیکن پولیو جیسی خطرناک بیماری جس میں بچوں کی ٹانگیں مفلوج ہوجاتی ہیں کئی سو سال پہلے دنیا میں آگئی تھی۔ ان ڈاکٹروں اور محققین کا انسانیت کو شکرگزار ہونا چاہئے جنہوں نے آسمان کا سورج مہینوں، سالوں تک نہیں دیکھا اور اپنی لیبارٹریوں میں بیماروں کے علاج کیلئے ویکسین بنانے کیلئے رات دن محنت کرتے رہے۔ دنیا کی ہر بیماری کی دوا اور خاص طورپر مہلک بیماریوں کی ویکسین بنانے میں کئی کئی دہائیوں کی شبانہ روز محنت شامل ہے۔ روز ویلیٹ نے 1938 میں نیشنل فاﺅنڈیشن آف اینفنٹائل پیرالائنزز بنائی جس کو پولیو کیلےءویکسین بنانے کی تحقیق کا کام سونپا گیا۔ دنیا کے کئی نامور ڈاکٹروں اور سائنسدانوں نے پولیو کی ویکسین بنانے کیلئے محنت کی اور بنا بھی لی لیکن جب وہ ٹرائل کیلئے بچوں تک پہنچے تو وہ اس طرح موثر ثابت نہ ہوسکی اور اس ویکسین کو فوراً بند کر دیاگیا لیکن1952ءمیں جوناس سالک نامی سائنسدان پولیو ویکسین بنانے میں کامیاب ہوا اگرچہ روز ویلیٹ یہ دن دیکھنے کیلئے زندہ نہ رہا لیکن اس کی بنائی ہوئی لیبارٹری نے کامیابی حاصل کرلی تھی۔ 1955ءمیں اس ویکسین کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی سطح کے ادارے نے قبول کرلیا اور اس کے ٹرائل شروع ہوئے اور یہ نہایت کامیاب ویکسین ثابت ہوئی۔ اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ 1938 میں بے شمار ممالک کو ملاکر پولیو کے کیسز ساڑھے تین لاکھ کے ویکسین پلانے کے بعد 2018ءتک یہ کیسز صرف33 رہ گئے۔ ویکسین کی یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ روز ویلیٹ امریکہ جیسے بڑے ملک کی صدارت کے دوران وہیل چیئر پر بھی اپنی ہمت اور طاقت کے ساتھ نہایت کامیابی سے وقت گزار گیا۔ وہ کوشش کرتا تھا کہ عوام کے سامنے کسی طورپر بھی اس کی معذوری ظاہر نہ ہو۔ وہ سوشل میڈیا یا کیمرہ کی بہتات کا زمانہ تو تھا نہیں۔ اگر فوٹو گرافر رپورٹنگ کیلئے روز ویلیٹ کی کوئی ایسی تصویر حاصل کرلیتے تھے جو وہیل چیئر پر ہوتی تھی تو سیکرٹ سروس والے وہ کیمرے سے نکال کر لے جاتے ہیں۔ یورپ کے اکثر رہنماﺅں کوبرسوں تک پتہ بھی نہ چل سکا کہ روز ویلیٹ معذور ہے عوام سے خطاب کے دوران اس کا ڈائس اس طرح بنایا جاتا کہ وہ ایک خاص سہارے کے ساتھ کھڑا ہوسکتا تھا یا اس کا ایک بیٹا ایک طرف سے اس کو تھامے رکھتا تھا۔ آنے والے زمانوں میں کالی کھانسی، خناق، خسرہ، چیچک، پولیو کی ویکسین بچوں کیلئے اس قدر کارآمد ثابت ہوئی کہ آناً فاناً ان بیماریوں سے مرجانے والے بچے زندگی پانے لگے اور آج تک بھی اس ویکسین کی اہمیت ہماری آنے والی نسلوں کیلئے نہایت کارآمد ثابت ہوگئی ہے۔ خاص طورپر پولیو کی ویکسین نہ لگوانے کی صورت میں دنیا کا کوئی بھی ملک آپ کے بچوں کو اپنے ملک کے اندر آنے کی اجازت نہیں دیتا اور ایک ایسے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت اور ڈیمانڈ ہوتی ہے جس میں ٹیکوں کی تفصیل درج ہوتی ہے۔ خاص طور پر افغانستان اور پاکستان میں پولیو کی بیماری کے کیسز اب اس جدید ترین صدی میں بھی اتنے زیادہ ہیں کہ بیرون ممالک میں ان دونوں ملکوں کا نام پولیو کی بیماری میں سرفہرست ہے۔ کورونا وباءچونکہ صرف ابھی دو سال کی ہے لیکن ان دو سالوں میں ویکسین کا بن جانا اور عوام الناس تک بھی پہنچ جانا ریکارڈ ہے۔ٹیکنالوجی اور جدید ترین معلومات اور تعلیم ریسرچ کی دنیا میں تیزی اس ویکسین کو بنانے میںکامیابی کاباعث بنی ہے لیکن اس کے باوجود لوگوں میں کورونا ویکسین کے بارے میں اسی طرح خدشات پائے جاتے ہیں جس طرح پولیو ویکسین کے بارے میں امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں1955 اور اگلی دو دہائیوں تک پائے جاتے تھے۔ ساری دنیا میں پولیوویکسین پائی جاتی تھی اور امریکہ اس کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ اسی طرح کورونا ویکسین اب امریکہ میں لاکھوں کروڑوں لوگوں تک دن رات پہنچ رہی ہے اور دنیا کے کئی ممالک میں خدشات کی وجہ سے لوگ اس کو لگوانے سے گریزاں ہیں خصوصاً ایک ویکسین جس کے لگوانے سے کچھ لوگوں کو سائید ایفیکٹ ہوئے اور یہ بڑا ضروری ہے کیوں کہ ویکسین کے اچھے برے اثرات ہوسکتے ہیں کورونا ویکسین کے بنانے میں مزید تحقیقات ابھی تک جاری ہیں اور آئندہ کئی برسوں تک بھی جاری رہیں گی اور جیسے جیسے زندگی آگے بڑھے گی اس ویکسین کی بہتری کے نہ صرف اثرات نظر آئیں گے بلکہ ویکسین کی کوالٹی میں بھی نمایاں کامیابی نصیب ہوگی یہ آج کی نسل کی خوش قسمتی ہے کہ سائنس اتنی زیادہ ترقی کرچکی ہے قلیل مدت میں ویکسین کی صورت میں کورونا جیسے مہلک مرض کی دوا دستیاب ہے ورنہ کتے کے کاٹنے‘ سانپ کے کاٹنے اور مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوجانے کی ویکسین بنانے میں کئی کئی دہائیاں لگ گئیں صرف ملیریا جیسے آج ہم اک عام بیماری تصور کرتے ہیں اور باوجود ایک دوسرے کو جلدی لگنے والی بیماری کے ہم خوفزدہ نہیں ہوتے آج سے دو تین سو سال پہلے تک ملیریا کا کوئی علاج نہیں تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک مچھر کے کاٹنے سے ہونے والی اس بیماری سے لوگ مرتے ہی جاتے تھے۔ مغل بادشاہ جہانگیر اپنی کتاب تزک جہانگیری میں ملیریا کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کی میری فوج میں ایک عجیب بیماری پھیل گئی ہے جو ایک سے دوسرے کو لگتی ہے اور پھر میرے سپاہی سینکڑوںکی تعداد میں مرتے ہی چلے گئے۔ اور یہ بیماری ملیریا تھی جو آج ایک عام بخار ہے اور فوراً ہی قابل علاج ہے۔