صو بے کا نواں بورڈ۔۔۔۔

میٹرک اور انٹر کے امتحا نا ت کو رونا ایس او پیز کے ساتھ جون 2021میں ہونے والے ہیں خیبر پختونخوا کے 8بورڈ ہیں ہر بورڈ کے پا س ایک لا کھ کے لگ بھگ طلباء اور طا لبات ہر امتحان میں شریک ہو نگیں۔ پشاور بورڈ کے پا س 6اضلا ع کے سکول اور کا لج ہیں، پشاور، چارسدہ‘ نوشہرہ‘ خیبر‘ چترال لوئیر اور چترال اپر کے طلباء اور طا لبات کی تعداد 7لا کھ سے زیا دہ ہو تی ہے مارچ 2020میں پشاور بورڈ کے حکام نے 400ٹر نکوں میں امتحا نی سٹیشنری پر چہ سوالات وغیرہ خصو صی حفا ظت کے ساتھ خیبر، چترال لوئیر اور چترال اپر کے دور دراز پہاڑی سکو لوں میں پہنچا یا ہر ٹر نک کے ساتھ بورڈ کا عملہ بھی تھا ابھی ایک پر چہ ہوا تھا کہ حکومت نے امتحا نات کو منسوخ کیا بورڈ کے عملے نے ٹر نکوں کو اسی طرح بھرے ہوئے اٹھا یا اور بمشکل پشاور پہنچا یا بعض امتحا نی مرا کز بورڈ کے دفتر سے 410کلو میٹر کے فا صلے پر تھے اس سال پھر وہی سلسلہ ہے، وہی امتحا نی مرا کز اور وہی ٹرنک ہیں وہی عملہ ہے وہی محنت اور خواری ہے ہمارے حکام نے چترال کو بھی نو شہرہ اورچارسدہ کی طرح قریبی پڑو سی سمجھ لیا ہے گذشتہ 20سالوں سے چترال کیلئے انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجو کیشن کے الگ بور ڈ کی تجویز گردش میں ہے چترال اُس وقت ایک ضلع تھا اب اس کے دو اضلا ع بن چکے ہیں اپر اور لوئرچترال میں زنا نہ اور مر دانہ ہائی سکولوں کی تعداد 79ہے اس کے علاوہ 15ہائیر سکینڈری سکول اور چار کا لج ہیں نجی شعبے میں 36ہا ئی سکول اور 24کا لج ان کے علا وہ ہیں طلباء اور طالبات کی تعداد میٹرک کی سطح پر 45000اور انٹر میڈیٹ کی سطح پر25000سے متجا وز ہو تی ہے گڈ گورننس کا تقا ضا یہ ہے کہ پشاور بورڈ پر امید واروں کارش اور کا م کا دباؤ کم کرنے کیلئے چترال لوئیر اور چترال اپر کیلئے الگ بورڈ تشکیل دیا جا ئے امتحا نی بورڈ کی خو بی یہ ہو تی ہے کہ اس کے جاری اخرا جا ت سر کاری خزا نے پر بوجھ نہیں ہوتے بورڈ اپنی آمدنی سے تما م اخرا جات پورا کرتا ہے اور بسا اوقات حکومت کی ما لی مدد بھی کرتا ہے 2002میں ضلعی انتظا میہ نے چترال بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈ ری ایجوکیشن کی تجویز دی تھی کمشنر ملا کنڈ نے بھی اس پر اپنی رائے دی تھی اس کے بعد چار بار یہ تجویز بھیجی گئی لیکن ان تجا ویز کو پذیر ائی نہیں ملی سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے ستمبر 2017ء میں اس پر حیرت کا اظہار کیا ان کے پا س بیٹھے جہانگیر ترین اور عمران خا ن نے کہا چترال کیلئے الگ بورڈ ضرور ہو نا چا ہئے تجویز کے کا غذات ٹیکنیکل فیزیبلٹی پیش کی گئی لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑ ھ سکی مو جودہ وزیر اعلیٰ محمود خا ن چترال لوئر اور چترال اپر کے کئی دورے کر چکے ہیں دونوں اضلاع کے چپے چپے سے وا قف ہیں پشاور بورڈ کی انتظا می مشکلات سے بھی واقف ہیں چترال میں قائم کیمپ آفس کی محدودات (Limitations) کو بھی جا نتے ہیں تاہم پورے صوبے کا انتظام، کویڈ 19کی پریشانیاں، روز روز مختلف گرو ہوں کے جلوس اور دھر نے ایسے حا لات پیدا کر تے ہیں کہ انتظا می سر براہ کو دیگر معا ملات پر تو جہ دینے کا مو قع نہیں دیتے پشاور بورڈ کے اعلیٰ حکام اگر مو جو دہ سال کے امتحا نی سیزن میں اپنے عملے کی نگرا نی کیلئے چترال لوئر اور چترال اپر کا دورہ کرینگے تو ان کو احساس ہو گا کہ چترال کا کیمپ آفس بہت محدود ہے چترال کے 70فیصد طلباء اور طا لبات کو اپنی دستا ویزات کیلئے پشاور کا سفر کر نا پڑ تا ہے جن امور کا تعلق سیکر یسی سے ہو تا ہے وہ امور کیمپ آفس میں حل نہیں ہو تے بورڈ کے اعلیٰ حکام کو اس بات کا بھی اندازہ ہو گا کہ ہر بورڈ سالا نہ امتحا ن میں 20ٹا پ ٹین طلباء طا لبا ت کو سکا لر شپ دیتا ہے چترال کے طلباء اور طالبات اس سہو لت سے محروم ہیں فیز یبلیٹی رپورٹ میں اس بات کا خصو صی ذکر آتا ہے کہ چترال لو ئر اور چترال اپر میں ایک الگ بورڈ کیلئے تعلیمی،انتظا می او ما لیا تی سہو لیات موجو د ہیں صوبے کا نواں بورڈ قائم کر نے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔