اسلام آباد:سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کی نظر ثانی درخواستیں منظور کرلی ہیں جس کے نتیجے میں ان کے خلاف ہونے والی ایف بی آر کی کاروائی، تحقیقات اور رپورٹ کالعدم قرار دے دی گئی۔
مختصر فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جسٹس فائزعیسیٰ بطور جج اپنی ذمہ داریاں سنبھالتے رہیں گے۔عدالت نے وکلا تنظیموں کی درخواستیں بھی منظورکرلی ہیں۔
سپریم کور ٹ کے 10 رکنی بنچ نے مختصر فیصلہ سنایا ہے جس میں کہا گیاہے کہ جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ اور بچوں کے خلاف کسی فورم پر کاروائی نہیں ہو سکتی،فیصلے کی تفصیلی وجوہات بعد میں کی جاری کی جائیں گی۔
بنچ کے ارکان جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر، جسٹس قاضی امین، جسٹس سجاد علی شاہ نے مخالفت کی ہے جبکہ جسٹس منظور ملک اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اپنا فیصلہ تبدیل کیا۔ بنچ میں شامل نئے جج جسٹس امین الدین خان نے بھی نظرثانی درخواستوں کے حق میں فیصلہ دیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی نظر ثانی کیس کی سماعت شرو ع کی تو حکومت کی طرف سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے دلائل میں موقف اپنایا کہ بنچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے حق دعویٰ نہ ہونے کا سوال اٹھایا تھا،وفاقی حکومت کیس میں باضابطہ فریق ہے، اورعدالت نے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرکے جواب مانگا تھا،وفاقی حکومت نے ریفرنس کالعدم ہونے پر نظرثانی کی درخواست دائرنہیں کی۔
عدالت نے ریفرنس قانونی نقاط میں بے احتیاطی برتنے پر کالعدم کیا تھاکیونکہ عدالت نے کہا تھا سرینا عیسی کو وضاحت کاموقع دیئے بغیر ریفرنس دائر کیا گیا،عدالت کیس ایف بی آر کو نہ بھجواتی تو وفاقی حکومت نظر ثانی اپیل دائر کرتی،حکومت کیس ایف بی آر کو بھجوانے کا دفاع کرنے میں حق بجانب ہے۔
عامر رحمن کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد ہو چکا ہے اورعملدرآمد کے بعد فیصلہ واپس نہیں لیا جا سکتا،سپریم جوڈیشل کونسل کونسل کو بھی مواد کا جائزہ لینے سے نہیں روکا جا سکتا۔
عامر رحمن نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 211 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی چیلنج نہیں ہو سکتی،سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتی، اس دوران جسٹس یحیی آفریدی نے کہاکہ پہلے آپکا موقف تھا کہ جوڈیشل کونسل کو ہدایات دی جا سکتی ہیں۔
کیا آپکا موقف نظر ثانی درخواستوں کے حق میں نہیں جاتا؟وفاقی حکومت کے وکیل عامر رحمن نے کہاکہ حکومت کاپہلے دن سے موقف ہے جوڈیشل کونسل کو عدالت نے کوئی ہدایت نہیں دی،سپریم کورٹ صرف غیر معمولی حالات میں جوڈیشل کونسل میں مداخلت کر سکتی ہے۔