انسانوں کی یادداشت کمزور ہوتی ہے وہ واقعات و حالات کو دنوں مہینوں اور سالوں کیساتھ ساتھ بھولتے ہی چلے جاتے ہیں لیکن تاریخ کا ورق ایسی الم ناک داستانوں کو اپنے سینے میں چھپاتے پھرتا ہے اور اسکے صفحات ٹٹولنے والوں کو صحیح صحیح واقعات کی کڑیاں سناتا چلا جاتا ہے یہ ان دنوں کی بات ہے جب پشاور شہر میں شام کا سورج غروب ہوتے ہی تمام دروازے بند کر دیئے جاتے تھے۔ انگریز کا سکہ رائج تھا اور تمام برصغیر کی طرح پشاور کا سکون بھی انگریزوں کے مرہون منت تھا جنگ عظیم ختم ہوئی تھی ترکی جو کہ مسلمانوں کیلئے سپرپاور کی حیثیت رکھتا تھا کے سلطنت عثمانیہ کھودینے کے بعد برصغیر میں بھی خلافت کو بچانے کیلئے تحریکیں زوروں پر تھیں مولانا محمدعلی جوہر مولانا شوکت علی اور دوسرے تمام قائدین خلافت کی تحریک کو آڑ بنا کر انگریزوں کو اپنی طاقت اور غلبے کا پیغام دینا چاہتے تھے۔ ہندو اور سکھ بھی مسلمانوں کے ساتھ اس تحریک خلافت میں اپنی تحریک موالات اور تحریک عدم تعاون شامل کرکے سرخرو ہونا چاہتے تھے برصغیر میں ان اقوام کو انگریزوں کی غلامی پسند نہ تھی 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے جس طرح مسلمانوں کا قتل عام کیاتھا اس نے برصغیر میں رہنے والی اقوام کو افسردہ‘ بددل اور معاشی طور پر نہایت کمزور کردیا تھا انگریز ہر وقت ان کو غلام رکھنے پر کمربستہ تھا اور خود دار اقوام ایسٹ انڈیا کمپنی کے کرتوں دھرتوں کو اپنا آقا تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھیں۔ جنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد ہی برصغیر میں فسادات اور تحریکیں شروع ہو چکی تھیں جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر نے جس طرح بیساکھی کے ایک ثقافتی میلے میں عورتوں بچوں اور بوڑھوں پر مشین گنوں سے فائرنگ کرکے لاشوں کے ڈھیر لگا دئیے تھے اس واقعے نے ہندوستان بھر کو سوگوار کر دیا تھا ان دنوں خبر کو پھیلانے اور پہنچانے کے ذرائع نہایت ہی محدود تھے ٹرنک کالز کرنے پر حد درجہ پابندی تھی جلیانوالہ باغ واقعے کی خبر ایک شہر سے دوسرے شہر مہینوں کے بعد پہنچی انگریز تحریک خلافت اور تحریک عدم تعاون اور برصغیر میں ہونیوالے بے شمار واقعات کے بعد چوکنا ہو چکے تھے وہ ہر وقت ایسی اوچھی حرکات کرتے رہتے تھے جس سے لوگوں کو ذلت و خواری ملے‘ مولانا محمد علی جوہر کی سرکردگی میں تحریک خلافت کو پشاور میں بھی پذیرائی ملی کانگریس۔انگریز پولیس کبھی خلافت کے لوگوں کو پکڑ کر لے جاتی اور کبھی کانگریس کے لوگوں کو‘ ہر روز اک تماشا لگا رہتا تھا لوگوں کو حکم ملتا پانچ منٹ کے اندر دکانیں بندکردیں وہ دوکانیں بند کئے بغیر بھاگ جاتے‘ کیوں کہ جیل میں جانا اور پھر واپس آنا دونوں ناممکن باتیں تھیں پشاور کے گھروں پر اچانک فجر کی نماز کیلئے دروازہ کھلتے ہی دھاوا بول دیا جاتا تھا خواتین کو پریشان کیا جاتا شام کے بعد گلیاں بندکردی جاتیں شریف شہری ساری رات گلیوں کے باہر وقت گزاردیتے ایسے میں خواتین بھی کئی بار انکے ساتھ موجود ہوتیں کسی ایک گھر کے باہر کوئی پوسٹر لگوادیا جاتا اور اگر وہ اتر جاتا تو گھر کے مالک کیلئے سزا مقرر ہوتی شریف لوگ سارا دن رات اسکی حفاظت میں دیواروں کیساتھ کھڑے رہتے شہریوں کو کہا جاتا وہ اپنے گھروں میں پیٹ کے بل رینگ کر جائیں گے۔ تاریخ کے صفات ان واقعات سے بھرے پڑے ہیں یہ23اپریل1930 کا ہی دن تھا پشاور کے لوگ ذلالتوں سے تنگ آئے ہوئے تھے یہ غلامی تو انکی موت ہی بنتی جارہی تھی پولیس نے آج کے دن کانگریس کے دو آدمیوں کو گرفتار کرنا تھا سول اور ملٹری گزٹ لاہور کی ایک خبر کے مطابق انسپکٹر علاؤالدین ان دو قائدین کو گرفتار کرنے کانگریس کے دفتر پہنچا لوگوں نے انہیں نہ پکڑنے کیلئے شورمچانا شروع کردیا لیکن ان دونوں قائدین نے رضاکارانہ طورپر اپنے آپ کو گرفتار کروادیا انسپکٹر علاؤالدین نے ان کو ہتھکڑی نہیں لگائی اور وہ خود ہی پولیس وین میں بیٹھ گئے لوگوں کا اور پارٹی ورکروں کا ایک ہجوم لاری کے پیچھے پیچھے چل پڑا نمک منڈی سے آگے کابلی دروازے تک پہنچتے پہنچتے وہ ایک بڑے جلوس کی شکل اختیار کر چکا تھا جیل کی طرف سے انگریز کمشنر اپنے گھوڑے پر کابلی گیٹ کی طرف آرہا تھا کہ اس کو ہجوم کی اطلاع ملی وہ کابلی تھانہ پہنچا۔انسپکٹر علاؤالدین بھی دونوں قیدیوں کو لیکر تھانے پہنچا اور کہا کہ تھانہ کھول دیں تاکہ قیدی اندر جاسکیں اتنے میں ایک پولیس گاڑی نے تیزی سے ہجوم کو کچلنا شروع کردیا موٹر سائیکل پر سوار ایک ڈسپیج رائڈر پولیس کی گاڑی کی ٹکڑ سے گرا اور مرگیا زندہ لوگوں پر گاڑی دوڑتی رہی اور لاشیں گرتی رہیں بعد میں مشتعل ہجوم کے اشتعال سے گھبرا کر ان کو لاشیں اٹھانے کی اجازت دی گئی رضاکار جب لاشیں اٹھانے لگے تو ان پر گولیاں برسائی گئیں اسکے بعد ہجوم بھپر گیا ہزاروں لوگ اس جلوس میں شامل ہوگئے اور قصہ خوانی بازار کی طرف چل پڑے انگریز فوج کو اس بات کی اطلاع ملتے ہی فورس کو قصہ خوانی بازار کی طرف دوڑا دیاگیا مشین گنوں اور اسلحے سے لیس پولیس قصہ خوانی بازار پہنچ گئی ہجوم نہایت پرامن تھا وہ صرف اپنے پیاروں کے یوں بے موت مارے جانے پر نوحہ کناں تھے انگریز شاید اسی تاک میں تھا کہ کب وہ انسانی خون سے ہاتھ رنگے گا پرامن لوگوں پر مشین گنوں سے فائرنگ شروع ہوگئی اور ساتھ ہی ان کو غیرت بھی دلائی جانے لگی کہ اب سینہ تان کر سامنے آؤ۔پشاوری اپنی غیرت اور خودی کا خون بہاتے رہے اپنا سینہ کھول کر سامنے آتے رہے سینکڑوں لوگ شام تک شہید ہو چکے تھے فائرنگ اس وقت بند ہوئی جب گولیاں ختم ہوگئیں زندہ لوگوں کو زخمی حالت میں اور شہیدوں کی لاشوں کو بے یارومددگار چھوڑ کر انگریز فورس قصہ خوانی بازار سے چلی گئی پشاور کے لوگوں کیلئے یہ ایک اندوہناک دن تھا ہر گھر سے جنازہ اٹھا تھا کئی لاشیں غائب کردی گئیں ان کے پیارے ان کو دفنا نہ سکے پیربخش وکیل اس وقت میونسپل کمیٹی پشاور میں اہم عہدے پر فائز تھے انہوں نے اس ظلم وستم پر احتجاج کیا ان کو ایک سال قید کی سزا سنادی گئی اور ایسے کئی قائدین اور مظلوموں کی داستانیں ہیں جو لہو کے آنسو رلاتی ہیں اپنی ایک مکمل تحقیقی کتاب قصہ خوانی کا قتل عام میں اس پورے واقعے کو سیاق سباق سے تجزیاتی طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے یہ تحقیقی کام میں نے گندھارا ہندکوبورڈ کی طرف سے تجویز کردہ ایک درخواست کے نتیجہ میں کیا ہے ابھی اسکی اشاعت کا کام باقی ہے حکومت برطانیہ کی طرف سے ساری دنیا کے خونی واقعات میں قصہ خوانی کا یہ دردناک واقعہ بھی شامل ہے اس ایک واقعے نے برصغیر کی کایا پلٹ دی علامہ اقبال نے قائداعظم محمد علی جناح کو اسی پرسوزواقعے کے بعد خطوط لکھے اور ہر صورت میں شمال مغربی ہندوستان کو آزاد مسلمان صوبوں میں شامل کرنے کی تجویز دی یہ تجویز وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ آزاد مسلمان ملک پاکستان کے مطالبے میں تبدیل ہوگئی اس واقعے کو تقریباً100سال ہوگئے ہیں تاریخ میں اللہ بخش یوسفی کی رپورٹ‘ جسٹس پٹیل اور جسٹس سلیمان کی رپورٹیں موجود ہیں میں نے اس سے بھی زیادہ تحقیقی کام مکمل کیا ہے اور انگریز کمشنروں اور انگریز حکام کی رپورٹس بھی اپنی کتاب میں شامل کی ہیں اور ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ ایک پرامن جلسہ تھا اور یہی واقعہ بعد میں پاکستان بننے کا موجب بنا میری دعا ہے کہ اللہ تعالی سانحہ قصہ خوانی کے شہداء کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے شہداء کا خون ہی آنے والی نسلوں کی حیات کا پیامبر ہوتا ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
میری کتاب کا ایک باب
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
نیپال میں ہمارے سفیر پشاور کے تھے
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
محلہ جوگن شاہ سے کوپن ہیگن تک کی لائبریری
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو