سعودی عرب کے شمال مغربی حصے میں ہزاروں ایسے آثارِ قدیمہ ہیں جو اہرامِ مصر سے بھی 2500 سال قدیم ہیں اور جنہیں ’’مستطیل‘‘ کہا جاتا ہے۔
ان کی دریافت کا سلسلہ 1970 کے عشرے میں شروع ہوا تھا لیکن ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے ان پر کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی حالانکہ یہ معلوم ہوچکا تھا کہ ’’مستطیل‘‘ کم از کم 7000 سال پرانے ہیں۔
اب پرتھ میں واقع یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے ہیو تھامس اور ان کے ساتھیوں نے ’’مستطیل‘‘ پر پہلی بار سب سے تفصیلی تحقیق کی ہے جس میں تقریباً دو لاکھ مربع کلومیٹر رقبے کا احاطہ کیا گیا ہے۔
شمال مغربی سعودی عرب کے اس علاقے میں انہیں ایک ہزار سے بھی زیادہ تعداد میں ’’مستطیل‘‘ ملے ہیں جو سابقہ اندازوں کے مقابلے میں کم از کم دگنی ہے۔
مستطیل کی لمبائی 20 میٹر سے 600 میٹر تک معلوم ہوئی ہے جبکہ ان میں استعمال کیے گئے بڑے سے بڑے پتھر 500 کلوگرام وزنی ہیں۔ البتہ ہر مستطیل کی دیواروں کی اونچائی 1.2 میٹر ہے جو خاصی کم ہے۔
دیواروں میں پتھروں کی ترتیب اور موٹائی دیکھ کر ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ ہر مستطیل کا ایک کونا ’’سر‘‘ اور دوسرا ’’دُم‘‘ کا درجہ رکھتا تھا۔
مستطیل کا مقصد کیا تھا؟ اس کا اندازہ بعض مستطیلوں سے ملنے والی، جانوروں کی ہڈیوں اور دوسری باقیات سے لگایا گیا ہے جس کے مطابق مستطیل غالباً کچھ خاص مذہبی رسومات (بشمول جانوروں کی قربانی) ادا کرنے میں استعمال کیے جاتے تھے۔
واضح رہے کہ تاریخی نوعیت کے بہت سے مذہبی واقعات کا مرکز ہونے کے باوجود، سعودی عرب کی قدیم تاریخ کا بیشتر حصہ آج تک نامعلوم ہے جبکہ مذہبی واقعات سے وابستہ تاریخ پر بھی زیادہ اور سنجیدہ تحقیق نہیں کی گئی ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ سعودی عرب کے صرف اسی علاقے سے ہزاروں کی تعداد میں مستطیل دریافت ہوئے ہیں جبکہ دیگر علاقوں میں اس طرح کے کوئی آثارِ قدیمہ موجود نہیں۔
کیمبرج یونیورسٹی پریس کے ریسرچ جرنل ’’اینٹیکیٹی‘‘ کے تازہ شمارے میں اس حوالے سے ایک تفصیلی مقالہ شائع ہوا ہے جس کے مصنفین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ ’’مستطیل‘‘ پر مزید تحقیق سے ان کے بارے میں ہم پر اور بھی غیر متوقع اور حیرت انگیز انکشافات ہوسکتے ہیں۔