کہتے ہیں کہ جب بھی کسی اجنبی ملک میں جاؤ تو اس ملک کے انتظام و ترقی کا اندازہ اس ملک کی ٹریفک سے لگایا جا سکتا ہے اگر ٹریفک منظم ہو اور صحیح طریقے سے رواں دواں ہو تو سمجھ جاؤ کہ یہ ملک بھی اسی طرح منظم ہے اور بااصول لوگوں کا ملک ہے اگر اس نقطہ نگاہ سے ہمارے ملک کو دیکھا جائے تو حالت ناگفتہ بہہ ہے۔ہمارے ہاں بہت عرصے سے ٹریفک نظام کچھ اْلجھنوں اورمشکلات کا شکار ہے اورسلجھن کا متقاضی ہے۔وطن عزیز میں ٹریفک کے مسائل میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔قریباً تمام ہی شہروں میں ٹریفک جام معمول بن چکا ہے۔ٹریفک قوانین کی پاسداری ہمارے عوام کرتے ہی نہیں۔بدترین ٹریفک جام کی صورت حال آئے روز اہم شہروں کے عوام کو درپیش رہتی ہے،اْن کا منٹوں کا سفر گھنٹوں پر محیط ہوجاتا ہے،انہیں ٹریفک جام میں شدید اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔اب رہی سہی کسر آئے روز کے احتجاجی مظاہروں،دھرنوں،ریلیوں اور جلوسوں نے پوری کر دی ہے۔ہر شعبے سے وابستہ افراد اہم شاہرا ہیں بلاک کرکے احتجاج کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔صوبائی دارالحکومت پشاور میں کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ درپیش آتا ہے جس کے باعث شہر کی ٹریفک جام ہو جاتی ہے اور لوگ منٹوں کا سفر گھنٹوں میں خجل وخوار ہو کر طے کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔اتوار کی چھٹی کے بعد کام کا پہلا دن عموماً ٹریفک رش کا ہوتا ہے۔ بے ہنگم اور بے ترتیب ٹریفک نے شہر کا حسن چھین لیا ہے۔ آپ شہر کی مرکزی شاہراہ کے ساتھ سروس روڈ اور کسی بھی لنک روڈ کی طرف چلے جائیں آپ کو ٹریفک کا دباؤ اذیت ناک لمحات سے دو چار کر دے گا۔ مجھے دکھ اور حیرت ہوتی ہے جب ہم ٹریفک جام میں ایمبولینس یا ریسکیو 1122کی ایمرجنسی گاڑی کوپھنسا ہوا دیکھتے ہیں کوئی بھی اسے راستہ دینے تک کو تیار نہیں ہوتا۔ پولیس کی ناکہ بندیوں، غیر قانونی پارکنگ، تجاوزات اور بے ہنگم تعمیرات کی وجہ سے ٹریفک جام روز کا معمول بن گیا ہے۔ محکمہ ٹرانسپورٹ اور ٹریفک انتظامیہ کے اعداد و شمار کے مطابق شہر کے مختلف روٹس حیات آباد موڑ،جی ٹی روڈ، خیبر روڈ، رنگ روڈ، ورسک روڈ، یونیورسٹی روڈ اور چارسدہ روڈ پر روزانہ بارہ لاکھ تک گاڑیاں گزرتی ہیں۔ جن میں پبلک ٹرانسپورٹ، مال بردار گاڑیاں اور نجی گاڑیاں شامل ہیں۔ ا یسے میں جو صورتحال سامنے آتی ہے اس میں ٹریفک کے مسائل اور مشکلات اس لئے بھی فطری امر ہیں،یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کا زیادہ زور موٹر سائیکل اوررکشہ والوں کا چالان کرنے پر ہوتا ہے،موٹر گاڑیوں اور بڑی گاڑیوں کو کچھ نہیں کہا جاتا۔ ٹریفک مسئلے کے حل کیلئیموجودہ سڑکوں کو کشادہ کرنا ہو گا،نئی سڑکیں بنانا ہونگی بلکہ حقیقی معنوں میں نئی اور جہاں ضرورت ہے وہاں رابطہ سڑکوں کا جال بچھانا ہو گا۔ حیات آباد جو کہ پشاور کا جدیدترین پوش رہائشی علاقہ ہے لیکن اس کی سڑکوں کو افغانستان جانے والے ٹرکوں نے تباہ کر دیا ہے تقریباًروزانہ 1000 ٹرک حیات آباد کی سڑکوں پر سے گزرتے ہیں جس کی وجہ سے صورتحال ناگفتہ بہہ ہے۔جبکہ یہ پشاور کی جدید بستی ہے اور جدید بستی کا یہ حال ہے۔اس ٹریفک کو باڑہ اچینی کے قدیمی فرنٹیئر روڈ پر ڈالا جائے اس طرح ان روٹوں کی ٹریفک سے شہر کی اندرونی سڑکیں محفوظ ہو جائینگی حکومت کو رنگ روڈ کی جانب بھی توجہ مرکوز کرنی چاہئے کیونکہ وہاں جگہ جگہ خود ساختہ ٹرانسپورٹ اڈے قائم ہیں کنٹینروں کے اڈے بھی بنے ہوئے ہیں۔ جرمانے کیلئے ٹکٹنگ کا نظام نافذ کیا جائے،ڈرائیوروں کو ٹریفک قواعد کا پابند بنانے کیلئے پوائنٹس کا سسٹم رائج کیا جائے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ رمضان المبارک کے جو چند دن رہ گئے ہیں ان میں شہریوں کو اس صورتحال سے بچانے کیلئے ضروری اقدامات کئے جائیں۔