کینیڈا کے مال اور مارکیٹیں اگرچہ کورونا کی وجہ سے بند ہیں لیکن آن لائن خریداری ہر خاص دن کے حوالے سے عروج پر ہوتی ہے”ماں کا دن“ بھی جب مئی کے مہینے میں آتا ہے تو پرفیومز‘ پرسز‘کپڑوں اور پھولوں پر سیل لگ جاتی ہے اور مغرب میں رہنے والے بچے دور دراز سے اپنی ماں کیلئے تحائف بھیجتے ہیں ان کے گھروں میں جاتے ہیں ان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔مشرق میں کہا جاتا ہے بھلا یہ بھی کوئی بات ہے ہر دن ہی تو ماں کا دن ہوتا ہے ہماری ماں تو ہماری نظروں کے سامنے ہوتی ہے اور مائیں بڑھاپے تک اپنے بچوں اور پھر ان کے بچوں کو دیکھتی ہیں پالتی پوستی ہیں اور زندگی کے پہیے کو آگے ہی طرف دھکیلتی ہیں دونوں معاشروں کے تفاوت کو دیکھ میں اک گہری سوچ میں ڈوب جاتی ہوں کیا ہر روز ہی ماں کا دن ہوتا ہے یا پھر واقعی سال میں ایک دن مال کا خاص دن منایا جاتا ہے جیسے سالگرہ‘ جیسے عید کا دن وغیرہ وغیرہ‘ میری سوچوں کے بھنور میں بہت جواب ہوتے ہیں کیونکہ میں نے مغرب اور مشرق دونوں کے معاشرے کسی حد تک دیکھے ہیں بچپن جوانی اپنے اردگرد‘ خدمت گزار عورتوں کو دیکھا ہے جو خاوند کی ایک آواز پر دوڑتی ہے چھ چھ بچوں کی پرورش کیلئے چاک وچوبند اور مستعد نظرآتی ہے باورچی خانے میں بھی نظرآتی ہے اور گندے کپڑوں کو صاف کرنے کی کوشش میں مبتلا ہوتی ہے ایک ہاتھ توے پر روٹی ڈال رہا ہوتا ہے تو دوسرے ہاتھ سے گندے پرتن صاف کر رہی ہوتی ہے مہمان آجائیں تو اسکا کام دوگنا ہو جاتا ہے دوپہر ختم نہیں ہوتی اور شام کے دسترخوان کی فکر لاحق ہوجاتی ہے شام ختم ہو جائے تو سمیٹنے اور سنبھالنے میں ہی آدھی رات ہو جاتی ہے یقینا آج کے دور میں بھی اس عورت کو سہولتیں میسر ہیں جو پڑھی لکھی ہے خود کماتی ہے‘خاوند کا سایہ سر پر موجود ہے لیکن مشرقی معاشرے میں کتنی مائیں پڑھی لکھی ہیں کتنی کمائی کے معاملے میں خودکفیل ہیں صرف گنتی کے چند اعداد ہی گنے جائینگے اور بس‘ باقی مائیں جو بچوں کے گھروں میں ان کی دست گیر ہیں اپنی ہر ضرورت کیلئے بیٹے کی آنکھوں کو دیکھتی ہیں اور بیٹوں کی بھی گنتی30-20 سے اوپر نہیں جائے گی کہ فرمانبرداری یا محبت یا خوف خدا کے الفاظ ختم ہو جائینگے۔ باقی مائیں تو خاموشی کا ایسا طویل لبادہ اوڑھ لیتی ہیں جو ان کے آنکھیں بند کرلینے کے بعد ہی ختم ہوتی ہے۔ بیٹے کی آنکھوں کو دیکھیں تو وہ بیوی کی نظروں کی تاب نہیں لا سکتا اور ماں کا ہر دن رات کی ہی طرح ہوتا کالاسیاہ تاریک‘ مغرب کی ماں تو خوش نصیب ہے قانون اورحکومت مل کر اسکے تحفظ کا سامان کرنے کی پابند ہوتی ہے نان نفقے سے لیکر چھت تک ذمہ داری سے گوری ماں مبرا ہوتی ہے بیماری‘ معذوری‘ خوف ڈر اور ایمرجنسی کی صورت میں حکومت‘ قانون ان کی حفاظت کرنے کے اصول اور انسانی اقدار کے مطابق پابند ہوتا ہے بچوں کی خدمت بچپن یا لڑکپن تو مناسب ہے جو وہ جی جان سے کرتی ہے اسکے بعد وہ اپنی زندگی جیتی ہے اپنی مرضی سے تفریح‘ موسیقی‘ دوستوں اور عبادت سے مستفید ہوتی ہے اسکو فکر نہیں ہوتی کہ میرا گھر نہیں ہے میرے پاس پیسے نہیں ہیں بیوی بن کر بھی خاوند کی منظور نظر تو رہتی ہی ہے بڑھاپا بھی اشیائے ضروریہ اور اچھی زندگی گزارنے کیلئے اچھا ہوتا ہے مشرق میں مائیں خاوند کی موجودگی تک تو اسکی ذمہ داری اور حفاظت کے زمرے میں آتی ہیں اور شرط یہ ہے کہ خاوند بھی ایسا ہو کہ واقعی ذمہ داری سمجھے واقعی میں حفاظت کرنے کا اہل ہو ورنہ تو اسکی زندگی کا یہ باب بھی ایسا ہوتا ہے جس کا کوئی انت نہیں ہوتا اور بڑھاپے تک زخم رستے ہی رہتے ہیں شوہر ساتھ نہ ہو اور بڑھایا آجائے تو پھر بچوں کے بچوں کو پالتی رہتی ہے صبح شام‘ دوپہر‘ رات‘ بارش بادل دھوپ‘ اسکا اپنا کوئی موسم نہیں ہوتا بس ایک موسم بڑاپائیدار ہوتا ہے اور وہ خزاں کا ہوتاہے۔مغرب کی ماں بھرے بازار میں اکیلی کھڑی ہے رات ہے دن ہے کوئی خوف نہیں کوئی خطرہ نہیں ہمارے مشرق میں 80 سال کی بوڑھی عورت ایک گھر میں اکیلی موجود ہو تو اس کی جان مال آبرو کے لالے پڑے رہتے ہیں ایسا طویل تفاوت دونوں معاشروں میں ہے کہ سمندروں کی طرح ڈونگا ہے کیا واقعی ہمارے مشرق میں ہر دن ماں کا ہوتا ہے وہ ماں جو ایک دوپٹے تین کپڑوں اور نئی جوتی کے ارمان لے کر مرنے کی دہلیز تک پہنچ جاتی ہے‘ مرگئی ہے دیگیں پکاؤ‘ خیراتیں کرو‘ قیمتی جوڑے دوسروں کو دئیے جاتے ہیں کہ جن اشیاء کو زندگی میں دیکھ کر ماں کا دل اچھل کر باہر آجاتا محبت برداشت نہ کرسکتی آنسو بہاتی رہتی کبھی سوچوں میں اپنی مائیں‘ ماسیاں نانیاں چلی آتی ہیں نہ جانے وہ اپنے غم کہاں چھپا کے رکھتی تھیں نظر نہیں آتے تھے پر وہ غموں کاپرتو ہوا کرتی تھیں آج بھی ہزاروں گھروں میں ایسی مائیں بیٹھی ہوئی ہونگی جو بیٹے کی طرف سے10 روپے بھی ملنے کا جشن ایسی مناتی ہوں گی کہ جھولیاں پھیلا دیتی ہوں اور نظریں اوپر آسمان پر لگادیں گی وہ عظیم مائیں جو فجر کی نمازوں میں ہاتھ اٹھاتی ہیں اور اٹھاتے اٹھاتے بوڑھی ہو جاتی ہیں خدمت‘ اطاعت اور وفا کرتے کرتے چہرے جھریوں سے سجالیتی ہیں جن کی آنکھوں کی جوتیں بیٹیوں اور بیٹیوں کے سکھ اور آسائش کیلئے جلتی تھیں وہ آج کئی ہزاروں لاکھوں گھروں میں رویوں کی مار کھا رہی ہوں گی بدسلوکی کے نشانے پر ہوں گی وہ اکیلی جو نہیں رہ سکتیں غیرت حمیت دیواریں بن کر کھڑی ہو جاتی ہیں مغرب کی ماں اچھی ہے‘ خوش ہے‘ سمجھ دار ہے جانتی ہے اولاد کا رشتہ وفادار نہیں ہوتا سراب سے کیا دل لگانا جتنا جلدی ہو سکے سرابوں سے دور ہو کر تنہائی سے دوستی کرلینی ضروری ہے سال میں ایک دفعہ قیمتی تحفہ اور کچھ وقت محبت کا گزارنا ان لمحات سے بدرجہا بہتر ہے جو بدسلوکی کے نشتروں سے ساری زندگی چھلتا رہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کی عید اور سادہ سی یادیں
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
داستان ایک محل کی
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
محل سے کھنڈر بننے کی کہانی اور سر آغا خان
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
شہزادی درشہوار
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
پبلک مائن سٹیٹ آرکنساس امریکہ
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو