عید کے بعد۔۔۔۔

عید بھی خیر سے گزر گئی  اور پورے ملک میں ایک دن عید سے خوشی دوبالا ہوگئی۔اب ایک بار پھر سیاست کا میدان گرم ہونے والا ہے۔ پاکستان ڈیموکرٹیک مومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ عید کے بعد ہماری حکومت مخالف تحریک زور پکڑے گی اس کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت کو حزب اختلاف سے کوئی خطرہ نہیں گویا عید کے بعد کچھ نہیں ہونے والا عید کے بعد ایک سے بڑھ کر ایک ڈرامہ دیکھنے کو مل رہا ہے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کی ضمانت پررہائی عمل میں آئی میاں شہباز شریف کے ساتھ مولانا کی ٹیلیفون پر بات ہوئی جوکسی طوفان کا پیش خیمہ ہوسکتی تھی‘ ادھر مسلم لیگ(ن) کے احسن اقبال کانام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا یہ ایسے واقعات ہیں جواب  عید کے بعد ہونے والی تحریک کے خدوخال کو واضح کرتے ہیں اور اس بات کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں کہ حکومت کو حزب اختلاف کی تحریک سے کوئی خطرہ نہیں۔ پوری دنیا میں جہاں جمہوریت ہے وہاں 4سال یا5سال بعد انتخابات ہوتے ہیں۔انتخابات میں جیتنے والی پارٹی حکومت بناتی ہے،ہارنے والی پارٹی اگلے انتخابات تک خاموشی اختیارکرلیتی ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر قانون سازی کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتی ہے بجٹ میں رخنہ ڈالتی ہے بازاروں میں،گلی کوچوں میں شوروغوغا نہیں کرتی،جلوس نہیں نکالتی،جلسے نہیں کرتی،دھرنے اور ریلیاں نہیں ہوتیں عام شہریوں کی زندگی میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جاتی اگر حزب اختلاف کی طرف سے یہ جمہوری کلچر کا مظاہرہ ہے تو حکومت کی طرف سے بھی اس طرز کے جمہوری کلچر کا مظاہرہ ہوتا ہے‘گویا دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کا احترام کرتی ہیں۔دونوں کی طرف سے جمہوری جذبہ دکھایا جاتا ہے۔برطانیہ کی لیبر اور کنزرویٹو پارٹیاں جمہوری جذبے کے تحت پُرامن سیاست کرتی ہیں امریکہ کی ڈیموکرٹیک اور ری پبلکن پارٹیاں جمہوری کلچر کا خیال کرتے ہوئے سیاست کو دشمنی نہیں بناتیں ہمارے پڑوس میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس ایک دوسرے کی مخالف جماعتیں ہیں۔انتخابات میں جیتنے والی پارٹی حکومت بناتی ہے ہارنے والی جماعت اگلے انتخابات تک خاموش رہتی ہے کسی بھی جمہوری ملک میں ایسا نہیں ہوتا کہ ہارنے والی پارٹی اور جیتنے والی پارٹی کے درمیان پکی دشمنی ہو حکومت حزب اختلاف کے لیڈروں کو جیلوں میں ڈالتی ہو اور حزب اختلاف کے لیڈر حکومت کو وقت سے پہلے رخصت کرنے پر کمربستہ ہوجائیں،ایسا کبھی نہیں ہوتا کیونکہ جمہوری کلچر اس کی اجازت نہیں دیتا۔۔سیاست میں پکی دشمنی نہیں ہوتی بلکہ ہلکی دشمنی بھی نہیں ہوتی،ملکی مسائل پر بحث ہوتی ہے پارلیمنٹ میں ان مسائل پر بات ہوتی ہے۔جن کا تعلق ملک کے مستقبل سے ہو امریکہ اور برطانیہ میں سماجی تحفظ یعنی سوشل سکیورٹی پر سب سے زیادہ بحث ہوتی ہے۔ان بحثوں میں لیڈروں کو تنقید کا نشانہ کبھی نہیں بنایا جاتا عید کے بعد بڑی تحریک کی دھمکی دینے والوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اتحاد میں شامل بعض جماعتوں نے اپنا راستہ الگ کرلیا ہے اور ایک بڑی جماعت کے اندر ضمانت،ای سی ایل،بیرون ملک روانگی وغیرہ کے مسائل نے سر اُٹھالیا ہے عید کے بعد تسبیح کے بکھرے دانوں کو ایک بار پھر ایک لڑی میں پرونا اتنا آسان نہیں ہوگا دوسری طرف حکومت کے سامنے حزب اختلاف کے ساتھ پکی دشمنی سے کہیں زیادہ اہمیت کے اُمور بھی توجہ کے محتاج ہیں یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کی بحالی اہم مسئلہ ہے فیٹف کی گرے لسٹ سے ملک کو نکالنا بے حد اہم ہے‘ اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ قومی قیادت کو کئی طرح کے چیلنجز درپیش ہیں جن کا مقابلہ  کرنا متفقہ لائحہ عمل سے ممکن ہے حزب اختلاف کو بھی اس نازک مرحلے پر بھی ایسا رویہ نہیں اپنانا چاہئے جس سے معاملات سلجھنے کی بجائے الجھنے لگیں ا ور توجہ اہم امور سے ہٹ جائے کورونا وباء نے جس صورتحال کو جنم دیا ہے وہ بھی توجہ مانگتی ہے اور عید کے بعد یہ اندازہ بھی لگ سکے گا کہ ایس او پیز کا کتنا خیال رکھا گیا ہے اور وباء پر قابو پانے کے حکومتی اقدامات کتنے نتیجہ خیز ثابت ہوئے ہیں۔ نیز بجٹ سر پر آگیا ہے اب دیکھا جائے گا کہ سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ کیونکہ دونوں طرف سے تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں اور روزوں کے بعد عید کے گزرنے کا انتظار کیا جاتا رہا ہے یعنی موسم کی گرمی کے ساتھ سیاسی گرماگرمی کا بھی اب دور چلے گا۔