دنیا بھر میں کورونا وائرس کے باعث کروڑوں افراد متاثر ہوچکے ہیں جن میں سے لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، جبکہ مہلک وائرس کے وار اب بھی جاری ہیں اور دنیا کی بڑی آبادی اس کے خطرے سے دوچار ہے جس کے سدباب کے لیے دنیا بھر میں ویکسینیشن کا سلسلہ جاری ہے تاہم ایسی نازک صورت حال میں ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی سازشی نظریات نے اپنی جگہ بنالی ہے۔
وبا کے آغاز میں ہی اس نظریے کو خوب فروغ حاصل ہوا کہ وائرس کی آڑ میں لوگوں کے جسم میں مائیکرو چپ لگانے کا منصوبہ ہے جس سے ان پر ہر وقت نظر رکھی جاسکے گی، اس کا الزام مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس پر لگایا گیا جوکہ کورونا کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ عطیات دینے والوں میں شامل ہیں۔
اب جب کہ کورونا سے بچاؤ کی ویکسین لگنے کا سلسلہ جاری ہے تو سوشل میڈیا پر پھر وہی سازشی نظریات پھیل رہے ہیں ، سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز میں بتایا جارہا ہے کہ ویکسین کے ذریعے جسم میں مائیکرو چپ ڈالی جارہی ہے یا اس میں کوئی دھات شامل ہے اور اس کے ثبوت کے لیے لوگ ویکسین لگنے کے مقام پر مقناطیس لگا کر دکھا رہے ہیں جس میں وہ مبینہ طور پر چپک بھی رہا ہے۔ جبکہ سوشل میڈیا پر یہ خبریں بھی گردش کررہی ہیں کہ کورونا ویکسین لگانے والی جگہ میں اتنی مقدار میں الیکٹرک کرنٹ پیدا ہوتی ہے کہ اس پہ ایک چھوٹی سی بلب روشن کی جاسکے۔
تاہم ان دعوؤں کی مصدقہ ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے اورماہرین کا کہنا ہے کہ یہ غیر مصدقہ ویڈیوز اس بات کا قطعی ثبوت نہیں کہ ویکسین میں کوئی دھات یا چپ شامل ہے۔
کورونا ویکسین بنانے والی امریکی کمپنی فائزر نے بھی ایسے دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی ویکسین میں کوئی دھات نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی اسے لگانے سے کسی قسم کا مقناطیسی ردعمل ہوسکتا ہے۔
ماہرین نے ایسے دعوؤں کو مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ویکسین لگانے کے بعد انجیکشن کی جگہ پر کسی قسم کی مقناطیسیت پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
آئرلینڈ کے ماہر طبیعیات پروفیسر مائیکل کوئے نے بھی ان دعوؤں کو مکمل بکواس قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بازو میں انجیکشن لگوائے جانے کی جگہ پر مقناطیسی کشش پیدا کرنے کے لیے تقریباً ایک گرام آئرن کی ضرورت ہوگی اور اگر کچھ موجود ہو تو آپ اسے آسانی سے محسوس بھی کرسکتے ہیں۔
ماہرین نے برطانوی خبر ایجنسی کو بتایا ہے کہ کورونا ویکسین میں کوئی دھات یا مائیکروچپ شامل نہیں ہے۔
برطانوی خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ اور امریکا میں منظور شدہ کسی کورونا ویکسین میں دھاتی اجزا شامل نہیں ہوتے تاہم ان میں ایلمونیم کی بہت تھوڑی مقدار ہوتی ہے اور اس حوالے سے آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین کا کہنا ہے یہ بہت کم مقدار ہے جو کہ قدرتی طور پر کھانے پینے کی اشیاء میں بھی ہوتی ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر بالفرض تیسری کسی ویکسین میں کوئی دھات موجود ہو بھی تو وہ مقناطیسی کشش کا سبب نہیں بنے گی کیونکہ اس عمل کے لیے اسے زیادہ مقدار میں دھات کی ضرورت ہوگی جو کہ ویکسین کی ایک ، دو خوراک میں نہیں ہو سکتی۔