چند قارئین نے میرے کالم پڑھ کر اپنی رائے مجھ تک پہنچائی کہ یہ کیا آپ ”سیاست“ کی دھول میں خود کو گم کر رہے ہیں۔ ہم تو آپ کے کالم میں وہی پرانا اسلوب اور وہی متصوفانہ موضوعات کو پسند کرتے ہیں اور انہی موضوعات کے باعث ڈھونڈ کر آپ کی تحریر یں پڑھا کرتے ہیں۔ چاہے اخبار ہو یا فیس بک آپ کی تحریرں کچھ نہ کچھ سوچنے پر مائل کرتی ہیں۔ میں انہیں کیا جواب دیتا بس اتنا کہا کہ کبھی کبھی ارد گرد کے حالات پر تبصرہ کرنے کو بھی جی کرتا ہے وگر نہ میرا کوئی سیاسی دھڑا نہیں، نہ کوئی مفاد وابستہ ہے کہ مختلف سیاسی پارٹیو کی ترجمانی کروں یا سیاسی رہنماؤں سے تعلق بناتا پھروں، میں تو صحافیوں اور کالم نگاروں سے بھی کم ملتا ہوں اور اب تو کورونا نے ہمیں گھرمیں نظر بند کر رکھا ہے‘ دوسرا میں کونسا داد لینے کیلئے کچھ لکھتاہوں، میں تو اس سلسلے میں دل کی مانتا ہوں کہ دل ہی ہمارا سب سے بڑا دوست،مشیر اور رہنما ہے، بشرطیکہ دل مختلف عوارض سے پاک ہو۔ دل کی بیماریوں میں غصہ، کینہ، حرص و ہوس لالچ، غرور، تکبر شامل ہیں۔ یہ بیماریاں ساری عمر ہماری جان نہیں چھوڑتیں۔ ہمارے باباجی فرماتے ہیں انسان جوں جوں عمر رسیدہ ہوتا ہے اس کی حرص و ہوس”جوان“ ہونے لگتی ہے۔ آخری عمر میں لالچ زیادہ بڑھ جاتی ہے، بلکہ یہ حرص و ہوس تو مرنے تک ہی ساتھ چپکی رہتی ہے۔من مارنا ایک مشکل عمل ہے۔ بہت پڑھ لکھ کر بھی دل دنیا سے بھرتا نہیں، مرنا تو کوئی بھی نہیں چاہتا۔ بلکہ موت برحق ہے اور سب کو علم ہے کہ ہمیشہ یہاں نہیں رہنا، اس کے باوجود ہم یہی سمجھتے ہیں کہ ابھی بہت عرصہ پڑا ہے، ایسے دنوں میں بھی کہ جب کورونا وباء کی ہلاکت خیزیاں جاری ہیں ہم یہی زعم رکھتے ہیں کہ دوسرے اس کا شکار ہوں گے اور ہم سلامت رہیں گے،یہ الگ بات ہے
کہ کورونا وبا میں کمی سے یہ امیدیں بڑھ گئی ہیں کہ چھوٹی عید کے برعکس بڑی عید کے رنگ پھیکے نہ پڑیں تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ کورونا کے حوالے سے تمام احتیاطی تدابیر اور اب ویکسینیشن کے عمل میں ہم لوگ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ ادھر اُدھر کی اڑتی افواہوں پر کان نہ دھریں اور بڑی عید کی فکرکریں۔عید الفطر پر تو حکومت کی طرف سے مکمل لاک ڈاؤن ہونے کے باعث لوگ گھروں میں دبکے رہے۔ کہیں کہیں ایس اوپیز کی خلاف ورزیاں بھی دیکھنے کو ملیں۔ اصل میں عید ایک ایسا تہوار ہوتا ہے کہ بچھڑے ہوئے، ناراض، دوسرے دیسوں میں مقیم لوگ بھی اس موقع پر اکھٹے ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ طرح طرح کے پکوان تیار کئے جاتے ہیں۔ نئے ملبوسات اور بن سنور کر اپنے چاہنے والوں سے ملاقات کابہانہ مل جاتا ہے۔ عید الفطر جسے میٹھی عید بھی کہا جاتا ہے توپھیکی پھیکی رہی۔ اس مرتبہ لوگوں نے فون پر یا ویڈیو کال پر ہی عید مبارک کہہ دی۔ گلے ملنا تو درکنار، ہاتھ سے ہاتھ نہ ملائے جا سکے،اسی ماسک زدہ عید پھیکی عید پر دکانداروں کی چاندی بھی ماند رہی۔ سحری کیلئے جگانے والے بھی اُداس تھے، محلے کا ڈھول والا کہنے لگا، صاحب جی۔اس بار عید کا نذرانہ دینے والے بھی منہ چھپائے پھرتے رہے۔،میں نے ڈھول والے کو عیدی دی اور کہا اب تم واقعی کوئی اور دھندہ کرو، کہنے لگے حضور! یہ تو ثواب کیلئے ہم کرتے ہیں اور اس سے گزارا تھوڑا ہوتا ہے۔ میں تو پٹھورے کی ریڑھی لگاہوں ہاں یہ ضرور ہے کہ اب پٹھورے کھانے والے بھی بہت کم رہ گئے ہیں۔ پیزا برگر ولی نسل آگئی ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ لاک ڈاؤن کا سیاپا ختم ہو تو کوئی اور کاروبار شروع کرتا ہوں۔۔ ایسے میں میرے ایک پرانے مرحوم دوست اطہر ناسک کا شعر منصور آفاق نے ارسال کیا تو پرانی عیدیں یاد آگئیں جو ہم ملتان میں اکھٹی منایا کرتے تھے۔ شعر ملاحظہ فرمائیں۔
عید کے دن بھی قدم گھر سے نہ باہر نکلے
جشن غربت جو مناتے تو مناتے کیسے