تقریباً ایک عشرہ پہلے میں نیپال کے شہر کھٹمنڈو میں تھی نیپال پہاڑوں کا شہر ہے اور دنیا کے بلند ترین پہاڑ اسکی شان کو بڑھانے کیلئے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں پہاڑوں کی چوٹیاں اپنے آپ کو فتح کروانے کیلئے مہم جوؤں کو بلاتی رہتی ہیں کسی کو واپس جانے دیتی ہیں اور کسی کو اپنی آغوش میں ہی سلادیتی ہیں میں نے اپنے نیپال کے سفر نامے میں ان کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے لیکن آج تو صرف میں اپنے کلاس روم کے ایک سیشن کی بات کرونگی میں ایشیا پیسفک انسٹی ٹیوٹ آف براڈ کاسٹنگ (AIBD) جانب سے ایک ورکشاپ میں بحیثیت طالب علم بیٹھی تھی میرے ساتھ انڈیا‘ تھائی لینڈ‘ چین‘ کوریا اورپاکستان سے آتی ہوئی خواتین بھی موجود تھیں آل انڈیا ریڈیو اور دور درشن کی پروڈیوسرز بھی ریڈیو پاکستان کی پروڈیوسرز سے مل کر حیرت اور خوشی محسوس کر رہی تھیں بعد میں ہم نے پاکستان ٹیلی ویژن سمیت ہر ادارے کو اپنا موضوع بنایا اور خوب خوب معلومات حاصل کیں اس طرح کی ورکشاپس تمام ممالک کیلئے ایک طرح سے سفارت کاری کا کام دیتی ہیں دوسروں کے رہن سہن‘ طور طریقے گفتگو کے طریقے تمام ہی اپنے اپنے ملک کی نمائندگی کرتے رہتے ہیں سری لنکا اور ملائیشیا کے دو بہترین سکالر ہمارے اساتذہ تھے۔ورکشاپ کے ایک ایسے ہی سیشن میں اس دن کا موضوع تھا کہ مرد باس کا ماتحت خواتین کیساتھ سلوک اور اس موضوع کو لے کر خواتین نے اپنے اپنے افسران کیلئے خوب زہر اگلا‘ بیسوی صدی کے اس آخری عشرے تک ابھی ہراسٹمنٹ کے قوانین دنیا بھر میں کہیں بھی موجود نہیں تھے اور نہ اس حوالے سے کبھی بات ہوتی تھی جو دفاتر یا کام کی جگہ ہر مرد عورتوں کو کسی بھی طور تنگ کرتے رہیں لیکن خواتین کی اس ورکشاپ میں ایسی یا اس حوالے سے کئی باتیں بھی سامنے آئیں. میری ملازمت کی نوعیت ایسی ہی تھی کہ آدمیوں کے ساتھ ہی واسطہ رہتا تھا اور تمام افسران‘ ماتحت‘ ملازمین زیادہ تر مرد ہی تھے لیکن کچھ روایات کے لحاظ سے بھی ہمارے مرد خواتین کا احترام کرتے ہیں اور کچھ یہ بھی کہ میری اپنی بھی ایک حیثیت تھی مجھے جبر کا سامنا تو بہت کرنا پڑا لیکن کسی اور طریقے سے کبھی فضول بات سننے کو نہیں ملی اس ورکشاپ میں بہت کچھ سننے کے بعد میں نے بہت سے نتائج اخذ کئے کیونکہ اس میں بے شمار مثبت باتیں بھی تھیں ماں جب اپنے بیٹوں کی تربیت کرتی ہے تو اس کو عورتوں کی عزت کرنا ماں بہنوں کے ساتھ بات کرنے کا سلیقہ سکھانا اور اسکی ایک ایسی سوچ کے ساتھ پروان چڑھانا کہ عورت قابل عزت ہے اور قابل احترام ہے شامل ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے کتنی بھی کوشش کرلی جائے مخالف جنس کی کچھ نہ کچھ کشمکش چلتی ہی رہتی ہے اور ان کو مسائل کا سامنا کرناپڑتا ہے دفاتر میں مرد حضرات بہت قابل احترام ہوتے ہیں 10فیصد تک آدمیوں سے خواتین کو شکایات ہو سکتی ہیں لیکن90فیصد وہ آدمی ہوتے ہیں جن کی شرافت اور احترام کے بل بوتے پر عورت اپنی نوکری جاری رکھے رہتی ہے ان تمام شکایات کیساتھ جو اس کو10فیصد کے ساتھ ہوتی ہیں ورکشاپ تو دھواں دار تھی بہت باتیں ہوئی بہت سی پریشانیاں خوف‘ حیرانیاں اور اس کے ساتھ حل بھی تجویز ہوئے اور یہ سیشن اس لئے خوشگوار رہا کہ وہاں کوئی مرد اپنا دفاع کرنے کیلئے موجود نہ تھا ایک واحد استاد تھا جس کا تعلق ملائیشیا سے تھا یعنی مسلمان ملک اور وہ اس سیشن میں لاتعلق بیٹھا رہا شاید یہ موضوع اتنا منفی اور اتنا مثبت تھا کہ اس نے غیر جانب دار رہنا مناسب سمجھا اپنے ملک کی عزت بہت پیاری ہوتی ہے میں ایسی کوئی منفی بات ہر گز نہیں کرنا چاہتی تھی تو جس سے پاکستان کو زیر بحث لایا جاتا لیکن مجھے اچھی طرح سے علم ہے کہ ہمارے ہاں بھی ہماری وہ نوجوان بچیاں جو ایسے پیشے اپنانے کی جرات کرتی ہیں جن کا تعلق کسی بھی طرح مردوں کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے تو ان کو باوجود پردے کے‘ باوجود پورے لباس کے بھی مسائل کا سامنا کرنے اور ان مسائل سے لڑنے کیلئے کتنا پاپڑ بیلنے پڑ جاتے ہیں۔زیادہ تر گھرانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کی خواتین استاد سلائی کڑھائی لیکچرر‘ ڈاکٹر کی حیثیت کام کریں‘مغرب کی عورت کو شاید آپ سب بہت آزاد اور بے بابک سمجھتے ہوں لیکن یہ عورت بھی مرد کے جبر اور استحصال کا شکار رہتی ہے اور یہ بھی معاشرتی طور پر اتنی پابند ہے کہ بے شمار باتوں کو اپنے آپ سے چھپاتی رہتی ہے آج کئی حوالوں سے معاشرہ کچھ تبدیل ہوگیا ہے اب ہماری نوجوان لڑکیوں میں عجیب طرح سے جرات اور بے باکی آتی جارہی ہے پھر خواتین میں اعلیٰ تعلیم کا شوق اور اسکا حاصل معاشرے کی تبدیلی کا باعث بنا ہے اب خواتین اور بہت کم عمر خواتین بہت اچھے شعبوں میں کام کرتی ہیں بلکہ اب تو وہ پردہ‘ وہ لباس جس کا سامنا ہم نے کیا ہے اور اب تک کرتے ہیں خال خال ہی نظر آتا ہے پھر بھی مرد بہت محتاط ہوگئے ہیں وہ خاتون سے بات کرتے ہوئے احترام اور اک خیال رکھنے کیلئے اپنا ذہن تیار رکھتے ہیں کچھ سوشل میڈیا نے خواتین اور مردوں کو بھی اتنا آگے کردیا ہے کہ وہ اب عورت اور مرد کے تعلق کو بہت ساری حیثیتوں میں ماننے کے ماخذ نکالنے لگے ہیں اور ذہنی طور پر عورت کو اپنے ہم پلہ تصور کرنے لگے ہیں اور ہماری خواتین کیلئے بے شمار وہ شعبے جن پر صرف مرد حضرات کی اجارہ داری تھی کھل چکے ہیں اور وہ شعبے جن پر صرف خواتین کی اجارہ داری تھی مردوں کیلئے عام ہوچکے ہیں زمانہ کافی حدتک بدل چکا ہے اب شاید عورت کو اپنی حفاظت کرنا آگئی ہے لیکن اب بھی مجھے یقین ہے کہ کہیں نہ کہیں ایسی خواتین موجود ہیں جن کو تکالیف کا سامناکرنا پڑ رہا ہوگا اس سلسلے میں میری اپنے بھائیوں اور بیٹوں اور بزرگوں سے درخواست ہے کہ ان کا خیال رکھا کریں نہ جانے کون سی مجبوریاں ان کو دروازے سے باہر آنے پرمجبور کرتی ہیں۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کی عید اور سادہ سی یادیں
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
داستان ایک محل کی
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
محل سے کھنڈر بننے کی کہانی اور سر آغا خان
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
شہزادی درشہوار
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
پبلک مائن سٹیٹ آرکنساس امریکہ
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو