آسٹن، ٹیکساس: رات کا وقت ہے، آپ شدید تھکے ہوئے ہیں اور آپ کو نیند آرہی ہے لیکن آپ کے پاس کوئی اشد ضروری کام بھی ہے جسے رات بھر جاگ کر ختم کرنا ضروری ہے۔ ایسے میں آپ کیا کریں گے؟
ایسے میں زیادہ تر لوگ چائے یا کافی پی کر خود کو جگائے رکھتے ہیں کیونکہ ان میں کیفین کی وافر مقدار ہوتی ہے جو وقتی طور پر تھکن دور کرتے ہوئے ہمیں جگائے رکھتی ہے اور ہم کام پر اپنی توجہ مرکوز رکھ سکتے ہیں۔
البتہ، اعصابی ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کا ایک معمولی جھٹکا وہی تاثیر رکھتا ہے جو چائے یا کافی کے ایک کپ میں ہوتی ہے۔
امریکا میں 40 رضاکاروں پر تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ اگر ’ویگس‘ (vagus) اعصاب کو صرف دو منٹ تک کم وولٹیج اور 25 ہرٹز فریکوینسی والی بے ضرر بجلی کے جھٹکے دیئے جائیں تو تھکن اور نیند (وقتی طور پر) ختم ہوجاتی ہیں اور انسان اگلے چند گھنٹوں کےلیے چاق و چوبند ہوجاتا ہے۔
واضح رہے کہ ’ویگس اعصاب‘ ہمارے دماغ سے لے کر پیٹ تک پھیلے ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کا تعلق ہمارے دماغ کے ان حصوں سے بھی ہوتا ہے جو ہماری سیکھنے کی صلاحیت اور توجہ میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔
امریکی فضائیہ اور نجی تحقیقی اداروں کے ان مشترکہ تجربات میں رضاکاروں سے مسلسل 34 گھنٹے تک جاگنے کےلیے کہا گیا۔ 20 رضاکاروں کے ویگس اعصاب کو مخصوص وقفے کے بعد ہلکی اور بے ضرر بجلی کے جھٹکے دیئے گئے جبکہ باقی 20 کو جگائے رکھنے کچھ نہیں دیا گیا۔
رضاکاروں کے جاگنے کے 10 گھنٹے کے بعد ان کا پہلا جائزہ لیا گیا جس میں دونوں گروپوں کی کارکردگی یکساں تھی۔
پھر مزید 3 گھنٹے بعد ایک گروپ میں ویگس اعصاب کو بجلی کے جھٹکے دیئے گئے اور تجربے کے اختتام تک، وقفے وقفے سے سات مرتبہ یہ عمل دہرایا گیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے طور پر جاگتے رہنے کی کوشش کرنے والے گروپ کی کارکردگی میں نمایاں کمی آگئی لیکن ویگس اعصاب میں بجلی کے جھٹکے وصول کرنے والے گروپ کی کارکردگی بہت معمولی سی کم ہوئی۔
تجربات کے دوران تمام رضاکاروں سے ان کی ذہنی کیفیت کے بارے میں سوالنامے بھی پُر کروائے گئے جن سے اندازہ ہوا کہ جو لوگ خود پر جبر کرکے جاگ رہے تھے، ان کی ذہنی حالت خراب ہوتی جارہی تھی لیکن بجلی کے جھٹکے کھانے والے رضاکار بہت سکون میں تھے۔
ان تجربات کے دوران کچھ ضمنی اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) ضرور سامنے آئے لیکن وہ چائے اور کافی استعمال کرنے کے منفی اثرات سے بہت کم تھے۔
ابھی یہ تجربات ابتدائی مرحلے میں ہیں، اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں گھر پر آزمانے کی کوشش ہر گز نہ کی جائے۔
نوٹ: یہ دلچسپ تحقیق ’’کمیونی کیشنز بائیالوجی‘‘ نامی ریسرچ جرنل کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔