لاہور میں تو موسم شدید گرم ہے، ہر طرف جیسے اک آگ برس رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب ذرا سی لو چلتی تھی تو سکولوں میں چھٹیوں کا مطالبہ ہونے لگتا۔ جون کے پہلے ہفتے میں تو اکثر موسم گرما کی تعطیلات ہو جاتی تھیں۔ یہ شاید پہلی مرتبہ ہواہے کہ انتہائی شدید گرم موسم میں حکومت نے سکول بند کرنے کی بجائے کھول دئیے ہیں۔ یہ درست ہے کہ کورونا کے باعث کئی ماہ سے تعلیمی ادارے بند تھے، مگر ہماری حکومت کے کارپردازوں کو تو یہ علم ہونا چاہئے کہ جون کی تپتی دوپہروں میں بچوں کا باہر نکلنا دشوار تر ہوجاتا ہے، عموماً جون میں تعلیمی ادارے بند کر دئیے جاتے ہیں۔سو انہیں بھی ان یام میں سکول یا کالج کھولنے کا اعلان نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اب ہو کیا رہا ہے کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی تعداد بے حد کم ہے، طلبہ کا مطالبہ ہے کہ انہیں آن لائن ہی پڑھایا جائے۔ فی الوقت جب موسم شدید گرم ہے تو ایک دو ماہ مزید سکول کالج بند رکھے جا سکتے تھے۔بعض کالجوں میں تو نصاب تمام ہونے کے باعث طلبہ کو ویسے ہی فارغ کر دیا گیا ہے، تعلیمی اداروں میں نصف تعداد میں طلبہ بلائے گئے ہیں ان میں بھی زیادہ آن لائن پڑھنے کی اجازت لے رہے ہیں۔ اساتذہ وہ مسکین طبقہ ہے کہ اسے اداروں میں بھی حاضری دینی ہے اور آن لائن پڑھنے والوں کو بھی وقت دینا پڑتا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ایک خبر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی کہ حکومت نے اساتذہ کی عزت و تکریم کیلئے چند ضروری اقدامات کئے ہیں۔ ایک تو اساتذہ کی گاڑیوں پر ٹیچر کا سٹکر لگے گا اور دوسرا پولیس والے اساتذہ کو سیلوٹ کیا کریں گے۔ ہم نے یہ خبر پڑھ کر مسرت کا اظہار کیا تھا مگر اگلے روز ہی ہماری آنکھوں نے ایک منظر دیکھ کر چپ سادھ لی کہ مظاہرہ کرنے والے اساتذہ کے ساتھ پولیس کا رویہ کچھ اور ہی تھا۔ سیلوٹ کی بجائے لاٹھیاں برسائی جار ہی ہیں اور آنسو گیس کی شیلنگ جاری ہے۔وہ معاشرے اور ہوتے ہیں جو اساتذہ کی تکریم اور احترام دیگر تمام طبقوں سے زیادہ کرتے ہیں۔ بعض ممالک میں اساتذہ کی تنخواہیں سب سے زیادہ ہیں۔اگر ہاتھ سے سیلوٹ کو حکمران اپنے لئے ہی مخصوص رکھیں اور تعلیم کیلئے بجٹ اور اساتذہ کی تنخواہوں میں ان کے مقام اور مرتبے کی مناسبت سے اضافہ کیا جائے تاکہ ان کے احتجاج اور پولیس سے آمنا سامنا ہونے کا امکان ہی نہ رہے تو یہ ان کی خدمات اور مقام کو بہترین سیلوٹ ہے۔