سری لنکا اپنے بہترین ساحلوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے مغرب کے لوگ اپنے ٹھنڈے برف سمندروں سے بھاگ کر ان گرم پانیوں کے خوبصورت ساحلوں پر اپنا آرام کا وقت گزارتے ہیں سری لنکا کے مشہور ساحلوں میں ھکادوا‘ بی رو والا‘ بینٹوٹا‘ مریسا‘یلیٰ‘ پوویلی‘ نیلاویلی‘ ٹرنکومیلی‘ آروگم بے اور انطولنا گال شامل ہیں‘ اور دنیا کے گنے چنے ساحلوں میں شمار ہوئے ہیں جہاں ہر وقت انگریز سیاح بھرے ہوئے ہوتے ہیں ان ساحلوں کے کنارے پانچ اور چھ ستاروں والے ہوٹل موجود ہیں جو ان کو مزید سہولیات بہم پہنچاتے ہیں سری لنکا اتنا گرین اور اتنا حسین ہے کہ اپنے گرم موسم کے باوجود سیاحت کیلئے آنے والوں کا سارا سال تانتا بندھا رہتا ہے ہماری کلاس نے ھکادوا کا ساحل دیکھا اور یہاں کروز کا سفر بھی کیا جو میری یادوں میں نہ مٹنے والا اک نقش ہے ہفتہ اور اتوار ہماری کلاس سے چھٹی کا دن ہوتا تھا اور تقریباً ہر ہفتے اور اتوار کو ہی ہمیں کولمبو کی کسی مشہور ترین مقام کی سیر پر ضرور لے جایا جاتا تھا ان ہی میں سے ایک ان مول سفر سری لنکا کے مشہور شہر کینڈی(KANDY) کا تھا یہ شہر پہاڑ پر واقع ہے اور اپنے ٹھنڈے موسم کی وجہ سے سری لنکا میں تفریحی مقام کے طور پر جانا جاتا ہے ہمارا تربیتی کورس کا سری لنکن ساتھی ہماری اس تفریح کا انچارج تھا اس نے باقاعدہ طور پر ایک نقشے کی مدد سے اس سیر کے راستوں تک پہنچنے کیلئے ایک پوری منصوبہ بندی کی ہوئی تھی اور سیر شروع ہونے سے پہلے ہر ایک شریک سفر کے ہاتھ میں وہ منصوبہ بندی پوری وضاحت کیساتھ تھما دی کولمبو سے کینڈی تک جانے کی سڑک‘ راستے میں آنے والے تفریحی مقامات پر رکنے کے اوقات‘ چائے‘ کھانا‘ اور دوسری ضروریات زندگی کیلئے وقفے اور پھر کینڈی میں رات کے قیام کی تمام سہولیات کو واضح انداز میں ہر ایک تک پہنچا دیا تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے کہ ہم کہاں جارہے ہیں اس سے پہلے ایسی منظم سیر کرنے کا میرا کوئی تجربہ نہ تھا میں واقعی سری لنکا کے لوگوں سے متاثر ہوگئی تھی ہماری بس مقررہ وقت پر روانہ ہوئی اور ہم کچھ گھنٹوں کے بعد ایک باغ کے سامنے رک گئے میرے نقشے کے مطابق یہ پپر یھارا گارڈنز تھے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ یہ گارڈنز اتنے حسین‘ اتنے سرسبز اور اتنے وسیع ہونگے کہ حیرانگی کو بھی مات دے دیں گے یہاں میں نے ایسے ایسے پودے دیکھے جو انسانی ہاتھوں نے اُگائے ہوئے تھے جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے کوئی بندہ نظر نہیں آیا لیکن اس گارڈن کی دیکھ بھال ایسے ماہر ہاتھوں کی گواہی دے رہی تھی جن سے ان کا حسن نکھر گیا تھا میں نے400سالہ پرانا بڑھ کا درخت یہاں دیکھا جس نے کم از کم کئی کنالوں پر محیط جگہ گھیری ہوئی تھی میلوں پر پھیلی ہوئی اسکی جڑیں مجھے آج بھی اپنا آپ حیرت میں گم کرتی ہوئی نظر آتی ہیں یہی پر ہماری ملاقات سری لنکا میں مقیم پاکستان ایمبسی کے فسٹ کونسلر سے ہوئی اس کے ساتھ فیملی تھی اور وہ بھی اپنی چھٹی گزارنے اس گارڈن میں آئے ہوئے تھے ہم سے مل کر بہت خوشی کا اظہار کیا ایک بات کا مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا اور میں نے اس سے سبق بھی سیکھا کہ انکی بیوی کو میں ان کی ماں سمجھ بیٹھی تھی کیونکہ ان کی عمروں میں کم از کم بھی20/25 سال کا فرق ہوگا اور میں اس خاتون سے کہتی رہی آپ کے بیٹے بہت محترم اور لائق ہیں جبکہ وہ ان کے خاوند تھے اور مجھے یہ بات بعد میں پتہ چلی تھی میں آج تک اس پر ندامت محسوس کرتی ہوں
انسان کو کبھی بھی جلد بازی میں رشتوں ناطوں کو غلط بولنا نہیں چاہئے جب تک کہ اس کا پورا علم حاصل نہ کرلے ایسی میں ایک شرمندگی میرے پروفیشن میں اور بھی ہے کہ میں نے پشاور کے ایک پینٹر کا انٹرویو کیا تو ایک سوال پوچھا کہ آپ کے بچے تو آپ کی مہارت دیکھ بہت زیادہ خوش ہوتے ہونگے؟ اس نے بڑے دھیمے لہجے میں جواب دیا تھا کہ میں بے اولاد ہوں سوچئے میری کیفیت کیا ہوگی تبھی بڑوں نے کہا ہے کہ انٹرویو کرنے سے پہلے انٹرویو دینے والے کے بارے میں پوری پوری معلومات حاصل کرو تب سوالات بناؤ جونیئر ہونے کی وجہ سے‘ یہ بلنڈر ہم نے تجربات سے دور گئے اور پھر کوشش کی کہ پہلے تولو اور پھربولو کی نصیحت قائم ودائم رہے میں نے بڑھ کا درخت پہلی دفعہ یہاں پر ہی دیکھا تھا اور اسکی چھاؤں تلے کھڑے ہو کر تصویر بنائی تھی بڑھ کا درخت بدھ مت میں محترم درخت مانا جاتا ہے کیونکہ اسی درخت کے نیچے بیٹھ کر بدھا نے مراقبے کئے تھے اور اپنے نظریئے کی پرچار گوتم بدھ یا بدھا نے بڑھ کے درخت کے نیچے بیٹھ کر کئی سالوں تک کیا تھا آج
بھی اس پرانے ماڈل کے کیمرے سے بنائی ہوئی تصاویر دیکھتی ہوں تو ایک سہانا اور دل نشین سا وقت آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے پریھارا گارڈنز سے ہم نکل آئے تھے اور اب ہماری بس چائے کے باغات کے سامنے رک گئی تھی ہم پہاڑی علاقے کی طرف جارہے تھے اور چائے کی کاشت پہاڑیوں کی ڈھلووانوں اور نیچے بکھرے ہوئے میدانوں میں کی جاتی ہے چائے کے باغات کے قریب کھڑے ہو کر اس کی خوشبو کے اثر اور سحر سے انسان نکل ہی نہیں سکتا ہم سب کا بھی یہی حال تھا سری لنکا چائے کی پیداوار میں دنیا کے چند بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے بس دوبارہ روانہ ہوئی اور ہم کچھ گھنٹوں کے بعد کینڈی کے مشہور شہر میں پہنچ چکے تھے رات ہوچکی تھی اور اس خوبصورت اندھیرے میں ایک پہاڑ کے وسط میں چمکتا ہوا روشن مجسمہ جوگوتم بدھ کا تھا دور دور سے دکھائی دیتا ہوا سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہا تھا یہ مجسمہ بہت ہی بہت بڑا تھا‘ ظاہر ہے ہم گوتم بدھ کے پیروکاروں کے دیس میں تھے ہر طرف بدھا کے چھوٹے بڑے مجسمے نظر آجاتے تھے اگست کا مہینہ تھا جب ہم کینڈی کی سیر کیلئے اپنا ہفتہ‘ اتوار گزارنے تفریح کی غرض سے گئے تھے اور اگست کے مہینے میں خاص مقصد کے ساتھ یہ سیر رکھی گئی تھی کیونکہ اس مہینے میں یہاں ہاتھیوں کا جلوس نکلتا ہے جو بدھ مت مذہب کے کلچر کا اک اہم ترین حصہ ہے ہاتھیوں کے اس جلوس کو اک ثقافتی میلے کے روپ میں دیکھنے کیلئے دنیا بھرکے سیاح یہاں جمع ہوتے ہیں میں تو یہ سب زندگی میں پہلی بار دیکھ رہی ھی جس طرح ہمارے ہاں کسی بھی قسم کے جلوس کو دیکھنے کیلئے سڑک کے دونوں اطراف سے لوگ جمع ہوجاتے ہیں یہی حال یہاں بھی تھا پہاڑی ٹیلوں پر اور سڑک کے دونوں اطراف میں ہزاروں لوگ کا اک سیلاب تھا جو ہاتھیوں کا جلوس دیکھنے امڈ پڑا تھا اورپھر جلوس نظرآنا شروع ہوا اتنے زیادہ ہاتھی شاید سینکڑوں کے حساب سے دیکھنے کا ہم سب کیلئے یہ ایک حسین اتفاق تھا ہر ہاتھی خوبصورت‘ منقش چادروں سے مزین تھا اور اسکے ساتھ اسکا مہاوت چاک وچوبند طریقے سے اسکے ساتھ تھا اگرچہ یہ سدھائے ہوئے ہاتھی تھے لیکن کسی بھی حادثے سے بچنے کیلئے یہ حفاظتی اقدامات تھے اتنے بڑے بڑے ہاتھی تو میں نے کبھی نیشنل جیوگرافک میں بھی نہیں دیکھے یا شاید اپنے سامنے اور بالکل نزدیک ترین سے دیکھنے کا یہ پہلا اتفاق تھا یہ ایک دلچسپ ترین تجربہ تھا جو سری لنکا کینڈی کے شہر میں گزری ہوئی حسین ترین یاد ہے کینڈی قدیم ترین مندروں کا شہر بھی کہلاتا ہے۔