بدترین لوڈ شیڈنگ 

یہ صورتحال بلاشبہ کسی عذاب سے کم نہیں کہ ملک بھر میں طویل لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ بدستور جاری ہے جس کا اندازہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ کئی شہروں میں 4سے6گھنٹے اور دیہاتوں میں 8 سے 12 گھنٹے تک بجلی کی بندش اب معمول بن چکی ہے۔جس سے فیکٹریوں اور ملو ں میں کام ٹھپ ہونے سے مزدوروں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ملک بھر میں شدید گرمی اور حبس کی انتہا ہے، اس پر ستم ہے کہ سارے ملک میں بجلی کی غیر علانیہ طویل دورانیہ لوڈشیڈنگ کاسلسلہ شروع کر دیا گیا ہے،طویل عرصے سے کراچی کے عوام بجلی کی عدم دستیابی پر سراپہ احتجاج تھے، لیکن اب تو ملک بھر کے تمام شہروں میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ نے شہریوں کے د ن کا سکون، رات کا چین برباد کرکے رکھ دیا ہے، بجلی کی اعلانیہ، غیر علانیہ بندش نے شہریوں کی زندگی جہنم بنادی ہے، لوڈ شیڈنگ سے بچے، خواتین، بزرگ اور بیمار سب پریشان ہیں۔عام شہریوں کا کہنا ہے کہ اس وقت تمام شہروں میں لوڈ شیدنگ اپنے عروج پر ہے، جبکہ وفاق سمیت صوبائی حکومتیں خاموش نظر آتی ہیں، ان کی جانب سے اب تک بجلی فراہم کرنے والے اداروں اور متعلقہ افراد کے خلاف کوئی اقدام یا نوٹس کا نہ لیا جانا افسوسناک ہے۔حکومت کی جانب سے بجلی کمپنیوں کو واجبات کی عدم ادائیگی بھی وہ مسائل ہیں جن کو حل کیے بغیر بجلی کی طلب ورسد کا توازن برقرار رکھنا مشکل ہی نہیں، بلکہ ناممکن ہوگا۔ لوڈشیڈنگ میں اضافہ سے شدید عوامی اشتعال سامنے آ رہا ہے، شہریوں کے مطابق ان علاقوں سے پوری ریکوری ہو رہی ہے اور لائن لاسز بھی نہیں، لیکن اس کے باوجود بجلی کی دن رات آنکھ مچولی جاری ہے۔ بھاری بھرکم بل دینے کے باوجود عوام کوبے تحاشا لوڈشیڈنگ کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر حکومت کو جہاں عوامی شکایات کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے، وہیں بجلی کے متبادل ذرائع کے استعمال کی بھی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔اس حقیقت سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے کہ موجودہ دور میں ترقی اور خوشحالی کے ضمن میں جو معیارات مقرر کیے گئے ہیں ان میں بجلی اور پانی کی فراہمی نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ عوام کی طرف سے بھی مسلسل صدائے احتجاج بلند کی جاتی ہے لیکن ذمہ داران اور ارباب بست وکشاد کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔اس تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو پانی اور بجلی کی بلاتعطل فراہمی کیلئے ٹھوس اور شفاف اقدامات کیے جائیں۔وطن عزیز کے عوام گزشتہ ایک عشرے سے زائد عرصے سے بجلی کے بحران اور اُس کی لوڈ شیڈنگ کے عذاب کو جھیل رہے ہیں۔ 2013کی انتخابی مہم میں (ن)لیگ نے ایک، دو اور تین سال میں لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کے دعوے کیے تھے۔اس کی حکومت قائم ہوئی،لیکن لوگوں کی قسمت نہ بدل سکی۔ (ن)لیگی رہنما بڑے طمطراق سے2018میں بجلی کی لوڈ شیدنگ پر مکمل قابوپانے کے دعوے کر رہے تھے، جب کہ حکومت کی مدت اقتدار مکمل بھی ہوگئی،پھر بھی ملک کے طول وعرض میں لوڈ شیڈنگ کے ڈیرے تھے۔بجلی کی لوڈشیڈنگ نے اہل وطن کو ایک ایسے عذاب کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے جس کے بیان کا احاطہ ممکن ہی نہیں۔ حکومت نے کئی ڈیموں کے منصوبوں پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا ہے،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ماضی میں کئی کئی دہائیوں تک حکومت میں رہنے والی جماعتیں اس طرف توجہ دیتیں اور جہاں ڈیموں کے بننے سے پانی کے ذخیرہ کرنے کا مسئلہ حل ہو جاتا وہاں اس سے سستی بجلی بھی دستیاب ہوتی۔ ستم تو یہ ہے کہ ماضی میں بجلی کی سستی پیداوار کی طرف توجہ نہیں دی گئی اور پانی کے منصوبوں کی بجائے گیس، ڈیزل اور پٹرول سے بجلی کے پیداواری یونٹ لگائے گئے جن کے ذریعے پیدا ہونے والی بجلی نہ صرف بہت مہنگی ہوتی بلکہ اس سے ماحولیاتی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت کو جن مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے ان میں سے بہت سے مسائل سابقہ حکومتوں کے چھوڑے ہوئے ہیں اور جن کو حل کرنے کے لئے اب حکومت کو منصوبہ بندی کرنی پڑ رہی ہے  اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہے تاہم اس ان طویل وقتی اور دوررس اہمیت کے حامل منصوبوں کے ساتھ ساتھ وقتی طور پر مسائل کے حل کی طرف بھی توجہ ضروری ہے۔