پاکستان امریکا کو فضائی راستہ دے رہا ہے؟ بڑا دعویٰ کردیا گیا

اسلام آباد: برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان امریکی اور نیٹو افواج کے سامان کی افغانستان سے واپسی کیلئے  فضائی راستہ فراہم کر رہا ہے،مال بردار طیارہ انٹونوف اے این 225  اٹلی کا فوجی ساز و سامان لے کر کراچی اترا تھا ۔

 بی بی سی کے مطابق  افغانستان کے دارالحکومت کابل سے 22 جون کی شب دنیا کے سب سے بڑے مال بردار طیارے انٹونوف اے این 225 نے اڑان بھری اور اگلی صبح یہ کراچی ایئرپورٹ پر لینڈ ہوا، یہ طیارہ ایئرپورٹ پر 20 گھنٹے سے زائد موجود رہا۔


طیارے کی آمد کچھ ایسی خفیہ نہیں تھی مگر غیرمعمولی ضرور تھی اسی لیے مقامی میڈیا کے اداروں نے دنیا کے سب سے بڑے طیارے کی کراچی ایئرپورٹ آمد کی خبر کی کوریج کی۔

پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان نے کہا کہ کراچی ایئر پورٹ پر طیارے نے ایندھن بھروایا اور واپس روانہ ہو گیا۔

 برطانوی نشریاتی ادارے کے پاس موجود دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے یہ طیارہ اٹلی کا فوجی ساز و سامان لے کر یہاں اترا تھا۔

 افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوجوں کے انخلا کے آغاز کے بعد سے انٹونوف کمپنی کی متعدد پروازیں فوجی سازو سامان لے جانے افغانستان آئی ہیں اور یہ پرواز بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

سول ایوی ایشن اور کارگو کے دستاویزات کے مطابق اٹلی نے اپنی ملٹری گاڑیاں اور دیگر سامان کراچی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اس طیارے کے ذریعے پہنچایا، جہاں سے یہ سامان بذریعہ کراچی پورٹ اپنی منزل کی طرف روانہ کیا جائے گا۔ان کاغذات میں اسلام آباد میں اٹلی کے سفارتخانے کے ڈیفنس اتاشی کا حوالہ دیا گیا، شاہین ایئرپورٹ سروس نے اس سامان کے لیے آٹھ لاکھ 68 ہزار روپے گودام کا کرایہ بشمول ٹیکس وصول کیا، جس کا دورانیہ تین روز ہے۔

 سول ایوی ایشن اتھارٹی کے بینک چالان میں ساز و سامان کی تعداد تھری پیس بتائی گئی  جس پر 28 لاکھ 42 ہزار روپے ٹیکس وصول کیا گیا لیکن مزید تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں، تاہم ایویا کون مینتروف کمپنی کے کاغذات میں 'شپمنٹ ٹو اٹلی بذریعہ کراچی' تحریر ہے اور تفصیلات میں ملٹری سپلائی، گاڑیاں، لیتھیم بیٹریوں کی تفصیلات درج ہیں۔

سول ایوی ایشن کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی معلومات کے مطابق انٹونوف ایندھن بھروانے کے لیے رکا تھا اور پھر روانہ ہو گیا، جب ان سے معلوم کیا گیا کہ اس طیارے نے کس نوعیت کا ساز و سامان یہاں اتارا تو انہوں نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا۔

میٹنگ میں شریک ایک سیاستدان نے بتایا کہ انہیں آگاہ کیا گیا کہ افغانستان سے فوجی انخلا کے دوران پاکستان امریکہ کو زمینی اڈے نہیں دے رہا ہے۔ لیکن یہ بات واضح کی گئی کہ امریکہ کے ساتھ سابقہ معاہدوں کی بنیاد پر فضائی حدود کا استعمال جاری ہے۔

انٹونوف کی یہ آخری پرواز تھی یا اس کی یا اس جیسے مال بردار طیاروں کی آمد اور یہاں سے جنگی ساز و سامان کی روانگی بذریعہ بندرگاہ کا سلسلہ جاری رہے گا، اس بارے میں صورتحال واضح نہیں۔وفاقی وزیر اطلاعت و نشریات فواد چوہدری کا موقف جاننے کے لیے انھیں اور ان کے ترجمان کو متعدد بار ٹیلیفون کیے گئے، تحریری سوالات بھیجے گئے لیکن ان کا 24 گھنٹے گزرنے کے باوجود جواب موصول نہیں ہو سکا۔

سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر امتیاز گل نے کہا کہ زیادہ تر سامان تو وہاں ہی افغانستان میں تباہ یا ناکارہ بنایا جا رہا ہے، کیونکہ افغانستان نے یہ سامان پاکستان کو دینے پر اعتراض کیا تھا۔ باقی جو سامان ہے وہ بذریعہ جہاز روانہ ہو رہا ہے کچھ سامان پاکستان سے بھی اس طرح روانہ ہو یہ خارج الامکان نہیں۔امتیاز گل کے مطابق اگر اس حوالے سے کوئی معاہدہ ہوتا تو یقینا منظر عام پر آ چکا ہوتا۔