دو سال کے سخت ترین لاک ڈاؤن کے بعد کینیڈا میں اب کچھ سختی کم ہوگئی ہے2020ء کے آغاز سے لیکر2021 کے موسم گرما تک کورونا وباء کی سختی اتنی زیادہ تھی کہ لگتا تھازندگی اب گھروں کے اندر قید کی صورت میں گزرے گی تمام معمولات زندگی بند تھیں خریداری پر قدغن تھی سوائے کھانے پینے کی چیزوں کے کچھ سٹورز کے سوا سب کچھ ہی ممنوع تھا اگر کوئی ایسا سٹور کھلا تھا جس پر گراسری اور عام زندگی کی اشیاء بھی میسر ہوتی تھیں تو الیکٹرک مشینیں اس طرح سیٹ کردی گئی تھیں کہ کسی فالتو شے خریدنے کی صورت میں مشین چیخ اٹھتی تھی کہ اس شے کا خریدنا اتنا ضروری نہیں ہے امریکہ کا بارڈر زمینی طورپر کئی شہروں سے ملتا ہے ٹورنٹو سے ملتا ہوا امریکن بارڈر نیا گرافال سے ہوتا ہوا بیس برج کے ذریعے کینیڈا سے مل جاتا ہے جو تقریباً گزشتہ دو سال سے صرف تجارتی مقاصد کے علاوہ ہر قسم کی سرگرمی کیلئے بند تھا البتہ ہوائی سفر دونوں ممالک کے درمیان کئی مہینوں تک کھلا تھا جس میں کورونا ٹیسٹ لازمی ہوتاتھا تعلیمی نظام یکسر آن لائن سسٹم پر منتقل ہوگیا تھا اور آج کی تاریخ تک جاری ہے موسم گرما کی چھٹیاں 29 جون کو ہو تی ہیں اگر وباء کنٹرول میں رہی تو امید ہے کہ سکول حسب معمول اور تعلیمی سال کے آغاز پر یعنی ستمبر سے ریگولر طریقے سے شروع ہو جائیں گے ان گزشتہ دو سالوں کے دوران سب سے زیادہ نقصان کاروباری لوگوں کو ہوا جب کبھی بھی میں گاڑی میں کسی بھی سڑک سے گزرتی تھی ہر دوکان پر لیز کا بینر لگا ہوتا تھا کاروبار کرنے والے وہ لوگ جو سارا دن کی بکری سے کمائی کرتے تھے جن میں چھوٹے کاروبار سے وابستہ لوگ تھے بری طرح متاثر ہوئے کیونکہ ان کی دوکانیں یکسر بند کروادی گئیں آن لائن سسٹم میں وہ اپنا کاروبار چلانے کی حالت میں نہیں تھے کھانے پینے کا کاروبار‘ بیوٹی پارلر‘ ہنرمند اور بے شمار ایسے لوگ جو دوبدو کام کرتے تھے سب دو سال تک بے روزگار ہوگئے کھانے پینے کے ہوٹلز اور ریسٹورنٹ پر سخت پابندیوں کی بناء پر کوئی باہر پارکنگ میں بنی ہوئی جگہ پر بھی کھانا کھانے سے قاصر تھا نتیجہ فروخت بری طرح متاثر ہوئی اور حیرت تو یہ ہے کہ مالکان نے کرایہ کم نہیں کیا قانون کچھ اس طرح کا ہے کہ مالک مالکان پر کوئی ایسی قدغن نہیں لگائی گئی جس سے وہ اپنے کرایہ دار پر کرائے کی رقم کو آدھا کردے اسکی وجہ یہ بتائی گئی کہ اس عمل سے بینکوں کا نظام ایسا متاثر ہوگا کہ حکومت ہی بیٹھ جائے گی کیونکہ مغرب میں تمام نظام مورگیج کے اردگرد گھومتا ہے جو بینک کو لازما ہر مہینے جائیداد مالکان ادا کرتے ہیں کرایہ نہ دینے کی وجہ سے لوگوں نے دوکانوں کو واپس کرنا شروع کر دیا ملنے جلنے پر پابندی اتنی سخت تھی کہ بھاری جرمانوں سے گزرنا پڑتا کچھ مہینوں میں پانچ افراد کے ملنے پر سے پابندی اٹھالی گئی لیکن کورونا کے مریض زیادہ ہونے کی صورت میں دوبارہ گھروں تک محدود ہونے کے احکامات واپس آگئے دفاتر کے لوگ اپنے گھر سے کمپیوٹر پر کام کرتے رہے مغرب میں زیادہ تر نظام آن لائن ہے تو سہولت یہ رہی کہ لوگوں کو تنخواہیں ملتی رہیں اور وہ گھروں میں بیٹھ کر حکومت کا نظام چلاتے رہے لیکن وہ لوگ جو دیہاڑی دار تھے وہ سب بے روزگار ہوگئے کینیڈا کی ریاست اپنے شہریوں کو کسی بے روزگاری‘ بیماری یا مصیبت میں تنہا نہیں چھوڑتی کورونا کے ان دوسالوں میں تمام وہ مڈل کلاس لوگ جو روزانہ کی بنیاد پر اپنا کام کرتے تھے اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر بیٹھ گئے تھے سب کو2000ڈالر فی کس ماہانہ ملنے لگا پہلا سال تو اس کو حاصل کرنے میں لوگوں نے فائدے اٹھائے اور ناجائز طورپر بھی اسکو حاصل کیا یعنی حق نہ رکھتے ہوئے بھی اپنے آپ کو ظاہر کیا کہ وہ مستحق ہیں‘ اسلئے چیکنگ کے نظام کو سخت کردیا گیا ہے دوسرے سال میں اس فائدے کو حاصل کرنے کیلئے زیادہ سخت قوانین بنا دیئے گئے اور جو لوگ حق دار نہیں تھے وہ نکال دیئے گئے اس طرح2000ڈالر صرف اور صرف حقدار لوگوں کو ملنے لگا یہ ایک بہت بڑی امداد اور سہارا تھا جو حکومت کی طرف سے اپنے شہریوں کو مصیبت کے وقت دیا گیا اس کے باوجود گھروں کے کرائے زیادہ ہونے کی وجہ سے اور مہنگائی ہونے کی وجہ سے بھی لوگوں کا معیار زندگی ایک دم سے گر گیا اور کئی لوگ چیک کی بجائے کیش ادائیگی پر چوری چھپے مزدوری کرنے لگے کورونا وباء نے دنیا کو ہر طرح سے متاثر کیا جس میں معاشی اور اقتصادی وجوہات تو تھیں ہی اسکے ساتھ ساتھ نفسیاتی وجوہات بہت زیادہ ہوگئیں مغرب کے لوگوں کی زندگیاں گھروں تک محدود ہوتی ہی نہیں ہیں موسم سرما کے کھیل اور جم‘ ایکسرسائز‘ باہر بیٹھ کر کھانا پینا‘ سینما ہوٹل‘ کلبنگ یہ سب چھن جانے کے بعد لوگ حکومتوں پر اپنا غصہ نکالنے لگے کبھی جلسے جلوس کی صورت میں کبھی سوشل میڈیا پر گالی گلوچ کرکے‘ حکومت خود بھی مجبور تھی اگر سب کچھ کھول دیا جاتاتو ہسپتال مریضوں سے بھر جاتے اور سہولتیں ناکافی پڑنے کی وجہ سے اموات میں اضافہ ہو جاتا اس وقت مریضوں کی تعداد300 اور400 کے درمیان ہے جبکہ ہسپتال میں 10ہزار مریض وباء میں مبتلا ہیں جس کو ماضی کی نسبت اچھی صورتحال سے تعبیر کیا جارہاہے ماضی میں یہ تعداد لاکھوں اور ہزاروں میں تھی اور اموات سینکڑوں میں تھی جیسے جیسے ویکسین زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ رہی ہے بیماری میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے مغرب میں ہزاروں کی تعدادمیں ایسے لوگ ہیں جو ویکسین کو شبہے کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ماضی میں بیماریوں کی ویکسین بنتے بنتے30سال50سال لگ جاتے تھے آخر اس وباء کی ویکسین ایک سال میں کیسے تیار ہوگئی اور اس بات کو مغرب کی سازش اور پروپیگنڈے سے بھی جوڑا جاتا ہے وجہ کچھ بھی ہو اب تو کسی بھی سٹور میں اندر جانے کیلئے پہلا سوال ویکسین کا ہوتاہے اور آنے والے مہ و سال میں نہ صرف بچوں کو لگنے والے چھ ٹیکوں میں اس ویکسین کا بھی اضافہ ہو جائے گا بلکہ سڑک پر بھی وہی چل سکنے کا حق رکھے گا جس نے ویکسین لگوائی ہوگی۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کی عید اور سادہ سی یادیں
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
داستان ایک محل کی
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
محل سے کھنڈر بننے کی کہانی اور سر آغا خان
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
شہزادی درشہوار
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
پبلک مائن سٹیٹ آرکنساس امریکہ
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو