سوئٹزرلینڈ کے مر کزی بینک کی جانب سے جاری کردہ سوئس بینکوں کے سالانہ اعداد وشمار کے مطابق کچھ عرصہ قبل مجموعی طور پر سوئس بینک میں موجود غیر ملکیوں کی دولت میں 4فیصد تک کمی آئی اوراس کا مجموعی حجم 14کھرب 20ارب سوئس فرانکس ہوگیاہے۔پاکستانی شہریوں کے تقریباً 1.5ارب سوئس فرانکس سوئس بینکوں میں موجود ہیں اور اس اعتبار سے پاکستان کا 69واں نمبر ہے۔برطانیہ سوئس بینکوں میں سب سے زیادہ رقم رکھنے والا ملک برقرار ہے جس کے تقریباً 350ارب سوئس فرانکس وہاں موجود ہیں اور یہ سوئس بینکوں میں موجود مجموعی غیر ملکی دولت کا 25فیصدبنتا ہے۔امریکہ کا دوسرا نمبر ہے اور اس کے تقریباً 196ارب فرانکس یا 14فیصد سوئس بینکوں میں موجود ہیں۔سوئس بینکوں میں زیادہ اثاثے رکھنے والے ممالک کی فہرست میں ٹاپ ٹین میں ویسٹ انڈیز،جرمنی،بہاماس، فرانس، لگمبرگ،ہانگ کانگ اور پاناما شامل ہیں۔آف شورفنانشل سینٹرز کے مجموعی طور پر سوئس بینکوں میں 378ارب سوئس فرانکس موجود ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک کے 207ارب فرانکس اور ترقی یافتہ ممالک کا حجم اس سے کہیں زیادہ ہے۔تازہ ترین ایک اطلاع کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے مطابق براڈ شیٹ انکوائری کمیشن رپورٹ پر عمل کرتے ہوئے حکومت سوئس اکاؤنٹس کیس دوبارہ کھولنے پر کام کر رہی ہے۔باخبر ذرائع کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف سوئس بینکوں سے 60کروڑ ڈالر کی دولت کی قومی خزانے کو واپسی کا کیس دوبارہ کھولا جا سکتا ہے۔لوٹی گئی قومی دولت کی وطن واپسی کے لئے ہر ممکن اقدام کسی بھی حکومت کی لازمی ذمہ داری ہے جسے بہر صورت پورا کیا جانا چاہیے۔ماضی کی حکومتیں اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کی مرتکب ہوئیں تو اس پر ان کا محاسبہ کیا جانا بھی ضروری ہے۔تاہم ان اقدامات کو سیاسی مفادات سے قطعی بالاتر ہونا چاہیے لہٰذا سوئس اکاؤنٹس کیس کو دوبارہ کھولنے کیساتھ ساتھ باقی ڈیڑھ سو ارب ڈالرز کی واپسی کیلئے بھی تمام ممکنہ اقدامات عمل میں لائے جانے چاہئیں بصورت دیگر زیر غور حکومتی کاروائی کو سیاسی مفادات کے تابع سمجھا جانا عین متوقع ہے۔ صحافیوں کی ایک عالمی تنظیم نے انکشاف کیا ہے کہ ایچ ایس بی سی کے سوئٹزر لینڈ میں واقع پرائیویٹ بینک کے لیک ہونے والے اکاؤنٹس میں پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ ڈالر اکاؤنٹ رکھنے والے ممالک میں سے ہے۔ذرا سوچئے!200ارب ڈالر ایسے ملک کے چند افراد کا سرمایہ ہے کہ جس ملک کی غالب اکثریت عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں جس ملک میں توانائی کا شدید بحران ہے اور معیشت تباہ حال ہے اور ملک آئی ایم ایف کی سخت کڑی شرائط پر قرضے حاصل کررہا ہے اس ملک کے غریب عوام کی خون پسینے کی کمائی کی اس قدر خطیر رقم سوئس بینکوں میں پڑی ہے۔ اس قدر بڑے سرمائے کو ملک میں لانے کیلئے پہلے بھی بسیار کوششیں ہوئیں لیکن نجانے حکمرانوں کو وہ کونسی مجبوریاں ہیں کہ سوئس بینکوں میں پڑی پاکستان کی رقم کو واپس لانے سے قاصر ہیں۔ سرمائے کو بیرون ممالک کے بینکوں میں رکھنے والے سرمایہ کاروں کامطمع نظر یہ ہے کہ وطن عزیز میں سرمایہ محفوظ نہیں ہے مزید برآں یہ کہ اس پر ٹیکس بھی دینا پڑتا ہے اگر دیکھا جائے تو جن سرمایہ داروں کا سرمایہ سوئس بینکوں میں پڑا ہوا ہے وہ اس سرمائے سے خود مستفید ہورہے ہیں اور نہ ہی دوسروں کے کام آرہا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان کو اس رپورٹ کا جائزہ لے کر دیکھنا چاہئے کہ وہ کونسے پاکستانی شہری ہیں جو اربوں روپے سوئس بنکوں میں چھپائے بیٹھے ہیں اور انہوں نے کن ذرائع سے یہ دولت اکٹھی کی ہے اور وہ کون ہیں؟ حکومت متعلقہ حکام سے تمام تفصیلات حاصل کرے اور پھر اس دولت کی واپسی کی کوششیں کرے۔ ایسے قوانین بنائے جانے چاہئیں کہ ایک مقررہ حد سے زیادہ سرمایہ خواہ وہ کسی پاکستان کا ہو یا کسی غیر ملکی ادارے کا، باہر نہ جاسکے تب ہی اس ملک کی اکانومی کو بہتر بنایا جاسکے گا۔جبکہ حکومت اپنے وعدے کا پاس رکھے اور سوئس بینکوں سے پاکستانی خزانے سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے میں جرات مندانہ پیش قدمی کا مظاہرہ کرے، عوام اس کا ساتھ دیں گے۔