یہ سکول غموں اور دکھوں کا آغاز تھے۔۔۔

تاریخ کی کتابیں اپنے اندر ہزاروں لاکھوں زخموں کو چھپا کے رکھتی ہیں جب ان کے صفحات کھولو زخم منہ کھول کر رونا شروع کر دیتے ہیں۔ مغربی معاشرے اور ان کی کتابیں اس تاریک ترین تاریخ سے بھری پڑی ہیں۔ معصوم اور سادہ لوح قبیلوں کی سرزمینوں پر قبضوں کی کہانیاں مغرب کے ماضی میں اتنی زیادہ ہیں کہ حال میں ہونے والی سرزمینوں کے قبضے اور غاصبانہ سازشیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ ایسے میں کئی رسنے والے زخم کینیڈا کے ماتھے پر بدنام داغ کی طرح موجود ہیں۔ وہ زخم جو غاصبانہ قبضے کے ہیں جب تین سو سال پہلے انگریز نئی سرزمینیں تلاش کرتے کرتے کینیڈا کے سمندروں کے ساحلوں پر پہنچے تو یہاں وہ قبائلی آباد تھے جن کو ریڈانڈینز (Red Indians)کہا جاتاتھا۔ خوبصورت ترین سمندر، خوبصورت ترین پہاڑ اور سرسبز و شاداب جنگل اور حسین علاقے انہی قبائلی لوگوں کی ملکیت تھے۔ وہ اپنی سرزمینوں پر اپنے بھرپر رسم و رواج اور بھری پڑی ثقافت کے ساتھ رہتے تھے۔ خوشیوں اور غموں کے ان کے اپنے رواج تھے۔ لباس اور شکار کے اپنے اصول تھے۔ انگریزوں نے حسین و سرسبز پانیوں سے بھرپور سرزمین دیکھی تو اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہوکر ان کے منہ میں پانی بھر آیا اس سرزمین پر کیسے قبضہ کیاجائے کہ ان قبائلیوں کو صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیاجائے لیکن ان جنگجو قبائلیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا اتنا آسان بھی نہ تھا جتنا وہ سمجھ بیٹھے تھے۔ پھر اس شاطر قوم نے ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا۔ ان سے تجارت کے نام پر راہ و رسم بڑھائی وہی تجارت جو انہوں نے صدی کے انہی سالوں میں برصغیر پاک و ہند میں بھی مغلوں کے ساتھ دوستی کے نام پر شروع کی تھی۔ دونوں ہی انڈین اقوام تھیں۔ دھوکا کھانے میں اور آنکھیں کھلنے تک میں بہت دیر کر دی۔ کینیڈا کے ان علاقوں میں فرانس کے رہنے والے بھی پہنچ گئے وہ بھلا انگریزوں کو تنہا ان سرزمینوں پر قبضہ کہاں کرنے دیتے تھے۔ سادہ لوح قبائلی ریڈانڈینز کو فر کے بدلے میں مصالحہ جات اور ہتھیار فروخت کرنے کے لالچ میں اپنا دوست بنا لیا۔ ان ہی سے ان علاقوں میں رہنے کا ڈھنگ سیکھا۔ برفزدہ علاقوں میں زندگی کیسے بچا کر رکھی جاتی ہے۔ یہاں کے جانوروں کا شکار کیسے کیا جاتا ہے۔ یہاں لباس کی ضروریات اور کھیتی باڑی کے کیا کیا طریقے ہیں۔ جب زندگی کے تمام طور طریق سیکھ لئے تو اپنے گھر بنانا شروع کردئیے اپنے پنجے نہایت آہستگی سے گاڑنا شروع کر دئیے۔ انگریزوں اور فرانسیسیوں کو لاکر یہاں شمالی امریکہ میں آباد کرنا شروع کر دیا۔ فرانسیسیوں نے اپنے لئے علیحدہ علااقے پسند کر لئے اور انگریزوں نے اپنے لئے علیحدہ علاقے منتخب کرلئے۔ قبائلی اپنے رسم و رواج اور ثقافت میں اتنے خود دار تھے کہ وہ تجارت کرنے والے اپنے دوستوں کو خود راستے بتا رہے تھے۔ وہ ایک نئی تہذیب سے ہم آہنگ ہونا چاہتے تھے۔ ان کی بھی خواہش تھی کہ ان کی آنے والی نسلیں تعلیم یافتہ ہوجائیں ا ور دنیا کے باقی حصوں کیساتھ روابط رکھنے میں آسانی محسوس کریں۔ انگریزوں کے ساتھ دوستی اور تجارت کو وہ اپنی نئی نسلوں کیلئے بہتر سمجھنے لگے تھے انگریز گوروں نے بھی ان کے دل میں اترنے کیلئے ہر وہ طریقہ خوشامد اپنایا جو برصغیر ہندوستان کے درباروں میں اپنایا تھا جب انگریزوں نے کینیڈا کے قبائلیوں کو پوری طرح اپنا گرویدہ بنا لیا تو اپنی کینچلی بدل ڈالیا ور تعلیم کے نام پر پہلی چال چلی۔ ریڈ ایڈینز کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ قبائلیوں یعنی ریڈ انڈینز کو فسٹ نیشن ڈکلیئر کیاگیا اور اپنے آپ کو باہر سے آنے والا شمار کیا۔ فسٹ نیشن یعنی وہ پہلی قوم تھے جن کا وطن پہلے سے موجود تھا اور ان کے وطن میں باہر سے لوگ تجارت کرنے کی غرض سے آکر یہاں رہنے لگے۔ فسٹ نیشن کے اس وقت کے بڑے قبائلی رہنماؤں نے اور کینیڈا میں بنائی گئی انگریزوں کی فیڈرل گورنمنٹ نے ایک معاہدے پر دستخط کئے اور ایسے سکول بنانے پر رضامندی ظاہر کی کہ جن میں فسٹ نیشن کے بچوں کو انگریزی تعلیم دی جائے گی اس معاشرے کی رو سے قبائلی رہنماؤں نے یہ امید ظاہر کی کہ نئے بنائے جانے والے سکول قبائلیوں کے بچوں کو ان طور طریقوں سے آگاہ کریں گے جن سے دنیا تیزی سے ترقی کر رہی ہے یہ معاہدہ برٹش نارتھ امریکہ ایکٹ 1867 اور انڈین ایکٹ1876 کہلاتا ہے۔ اس معاہدے کی رو سے حکومت کینیڈا فسٹ نیشن کے بچوں کو تعلیم دیگی اور کینیڈا سوسائٹی کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر رہنے کیلئے مدد فراہم کریگی اور فیڈرل گورنمنٹ ان سکولوں کو سپورٹ دیگی جو مقامی لوگوں یعنی فسٹ نیشن کے قبائلی علاقوں کے بچوں کو اس قابل بنائے گی کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں اور دولت مند ہوکر حکومت پر انحصار کرنا چھوڑ دیں۔ یہ سکول غموں اور دکھوں کا آغاز تھے جو فسٹ نیشن کے لوگوں کے دلوں اور روحوں میں آئے دن زخم کرتے گئے اور انگریزوں اور فرانسیسیوں کیلئے غاصبانہ قبضوں کی خوشیوں کے وہ سال تھے کہ جو فسٹ نیشنل کی لاشوں پر بنائی جانے والی تھیں۔ غموں اور زخموں کو یہ داساتیں اتنی اندوہناک ہیں کہ شاید میرے آئندہ آنے والے کئی کالم بھی ان آہوں اور گناہوں کو پوری طرح بیان نہ کرسکیں جو ایک امن پسند قوم کیساتھ انگریزوں نے روا رکھا۔