عید سے چند روز قبل ملک میں چینی، گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہو گیا ہے،جب کہ اگلے چندروز میں ملک میں چینی کی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ مختلف کمپنیوں نے گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتیں بڑھا دیں۔تھوک مارکیٹ میں چینی کی فی کلو قیمت 94روپے سے بڑھ کر 100روپے ہو گئی۔ چینی کی 50کلو کی بوری 4700روپے سے بڑھ کر5000روپے ہوگئی۔درجہ اول گھی کی قیمت میں 38روپے فی کلو اضافہ ہو گیا جس کے نتیجے میں درجہ اول کا گھی 305روپے سے بڑھ کر 343روپے ہو گیا۔درجہ دوئم کے گھی کی قیمت میں 15روپے فی کلو اضافہ ہو گیاجس کے باعث درجہ دوئم کے گھی کے نرخ270روپے سے بڑھ کر 285روپے ہو گئے۔جب کہ اگلے چند روز میں ملک میں چینی کی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے مقامی چینی پر سیلز ٹیکس وصولی کیلئے مقرر کردہ 60روپے فی کلو گرام اور درآمدی چینی کیلئے 725ڈالر فی میٹرک ٹن ویلیو ایشن ختم کر دی اور ایف بی آر نے چینی پر سیلز ٹیکس کی رعایت 2016 میں جاری کردہ نوٹیفیکیشن 812(i)/2016منسوخ کر دیا ہے جس کے بعد آئندہ معمول کے مطابق چینی پر60روپے فی کلو گرام کی بجائے مارکیٹ پرائس پر سیلز ٹیکس وصول ہوا کرے گا۔اس اقدام سے چینی پر سیلزٹیکس بڑھنے سے قیمتوں میں اضافے کا امکان ہے۔ رواں مالی 2021-22کا وفاقی بجٹ پیش ہونے کے بعد سے ملک میں مہنگائی نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔بجٹ پیش ہونے کے بعد جون میں ملک میں مہنگائی کی شرح میں 0.28فیصد اضافہ ہوا ہے اور سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی اوسط شرح بڑھ کر 14.52فیصد ہوگئی ہے۔دوسری جانب سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح بڑھ کر 15.29فیصد ہوگئی ہے۔ گذشتہ ہفتے کے دوران ٹماٹر 14.56فیصد، چکن 11.43فیصد، پیاز 8.38فیصد،آلو 1.21 فیصد، لہسن 6.97فیصد اور گھی 5.36 فیصد، کوکنگ آئل 1.31فیصد مہنگا ہوا جبکہ دال مونگ 3.79فیصد، دال مسور 0.26فیصد دال چنا 0.71فیصد، دال ماش 0.45فیصد اور چینی 0.12فیصداضافہ ہوا ہے۔پٹرولیم کی قیمتوں میں ہو شربا اضافہ پہلے سے پریشان حال عوام کو مزید بے حالی کے دلدل میں دھکیلنے کے مترادف ہے،پٹرولیم اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کا مطلب ہر ایک چیز کی قیمت میں کئی گنا اضافہ لیا جاتا ہے،اس سے صرف گاڑی رکھنے اور پٹرولیم مصنوعات استعمال کرنے والے ہی متاثر نہیں ہوتے۔سبزی سے لیکر ہر چھوٹی بڑی چیز کی ٹرانسپوٹیشن کا خرچ بڑھے گا اور نتیجہ میں ان کی قیمتوں میں اضافہ یقینی ہے،جس سے وہ عام آدمی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا جو پٹرولیم مصنوعات کبھی خریدتا ہی نہیں۔کورونا کی چوتھی لہر نے ایک بار پھر کاروباری اداروں کو متاثر کرنا شروع کیا ہے،کئی ادارے بند ہونے سے بیروزگاری نے عوام سے قوت خرید چھین لی ہے تو دوسری جانب اشیاء ضروریہ کی قیمتیں اتنی زیادہ ہو چکی ہیں کہ دو وقت کی روٹی کا بندوبست بھی کاردار دکھائی دیتا ہے۔قیمتوں پر کنٹرول کا ایک نظام جو پہلے موجود تھا وہ بھی عوام کی تکالیف میں کمی کا باعث تھاجبکہ حکومت بار بار مجسٹریسی نظام لانے کا کہہ رہی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ اب تک یہ مرحلہ طے نہیں ہوا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مجسٹریسی نظام ماضی کی طرح فعال کیا جائے، اس میں کوئی شک نہیں کہ مارکیٹ میں طلب اور رسد کے درمیان توازن کو قائم رکھنا اوراس کے نیتجے میں قیمتوں کوقابو میں رکھنا از حد ضروری ہے اور یہ تب ہی ہو سکتاہے جب چیک اینڈ بیلنس کا ایک منظم نظام ہو اور اشیائے خورد نوش فروخت کرنے والوں کو یہ خوف ہو کہ وہ اگر حکومتی نرخوں سے ہٹ کر کوئی چیز بیچتے ہیں توان کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ مجسٹریسی نظام کو بلا تاخیر دوبارہ فعال بنایا جائے تاکہ صارفین کے تحفظ کی کوئی راہ نکل آئے۔ مارکیٹ میں اشیائے صرف کی موجودگی کو یقینی بنانا اور مناسب نرخوں پر صارفین کو اس کی دستیابی بہت اہم امور ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے مجسٹریسی نظام ایک بہتر متبادل ہے جس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ واضح رہے کہ یہ نظام عرصہ دراز سے موجود ہے تاہم صدر مشرف کے دور میں اس نظام کو ختم کیاگیا جس کے مارکیٹ اور صارفین کے حوالے سے منفی اثرات سامنے آئے۔